تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ تراسی کی بات ہے تایا جان گہوٹکی سندھ میں شہید کر دیے گئے تھے۔ان دنوں وہاں اے آر ڈی کی موومنٹ تھی بھرچونڈی کے پیروں کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک نہ تھے بد قسمتی سے پنجابیوں اور سندھیوں میں ایک دیوار سی کھڑی تھی جسے دونوں طرف کے انتہا پسند بلند سے بلند تر کئے جا رہے تھے۔میں سعودی عرب سے واپس آ چکا تھا ایک اور سفر کے لئے تیار تھا کہ چودھری عبدالغفار گجر میرے تایا جان کی شہادت ہو گئی ٨ دسمبر ١٩٨٣ کی وہ منحوس رات مجھے یاد ہے میں اپنے تایا زاد اور بہنوئی مختار احمد گجر کے گھر خیابان میں تھا کہ ماموں زاد گل محمد کے ذریعے یہ خبر ملی قبلہ والد صاحب مرحوم مبھی وہاں موجود تھے۔ایک قیامت ہم پر گزر گئی۔چچا جان مرحوم اپنے بھائی کی چارپائی کے ساتھ ٹیوٹا پک اپ میں دسمبر کی سخت سردی میں پیچھے بیٹھ کر پنڈی پہنچتے ہیں
ہم انہیں دفن کرنے موضع نلہ لے گئے جہاں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔تایا جان کے قتل کی داستاں اپنی جگہ طوالت تحریر مانگتی ہے ہم برادر مختار گجر چودھری ذوالفقار علی چودھری ارشاد مرحوم اور دیگر کے ساتھ سندھ پہنچتے ہیں وہاں جا کر معلوم ہوا کہ پولیس ہماری منتظر ہے۔ان دنوں سندھ کی حالت دگرگوں تھی ہم پنجاب میں رہنے والے لاقانونیت سے ناآشناء تھے آج تو پنجاب سندھ بلوچستان تو سب سے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔وہاں ہم دن رات ایک کئے رہے۔وہاں کی زندگی کیا تھی صبح جیپ میں بیٹھ کر نکلنا دن بھر ملزمان کی تلاش کرنا بلکہ بعض اوقات رات کو بھی۔جوان العمر تھا پھرتیلا تو ساٹھ سال کی عمر میں بھی ہوں۔دن بڑے بور گزر رہے تھے۔بیگم گجرانوالہ میں تھیں اللہ کی طرف سے دوسری خوشی متوقع تھی۔ایک دن خبر آئی کہ اللہ نے مجھے دوسرے بیٹے کا باپ بنا دیا ہے۔
میرا دوسرا جگنو میری دوسری روشنی نبیل اس دنیا میں آیا ۔آج اس کی سالگرہ ہے مارچ آٹھ انیس سو چوراسی کو حافظ نبیل حسن ہمیں ملے۔باپ بننا دنیا کی بڑی خوشیوں میں سے ایک ہے۔مجھے چند دنوں کی چھٹی ملی ۔دوسری خوش خبری بھی ہمیں وہیں ملی اللہ نے نے میرے تایا زاد کو بیٹی بھی عطا کی کشور کی ولادت بھی آگے پیچھے ہوئی۔میرا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر باغبانپورہ گجرانوالہ پہنچ جائوں لیکن اڑ کر تو نہیں جایا جا سکتا تھا غالبا ہم اسی سرخ رنگ کی ٹیوٹا جیپ پر واپس آئے جس میں ہم بندوقیں پکڑے قاتلوں کی تلاش میں مصروف رہا کرتے تھے۔اس جیپ کے واقعات بیان کروں تو دلچسپی سے قاری شاید کھانا بھی نہ کھائے۔بھائی اقبال ملا نصرالدین نلہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ان کی بزلہ سنجیاں ہنسا ہنسا کر مار دیتیں اگر وہ نہ ہوتے تو شاید ہم دوسری جنگ عظیم کے قیدیوں کی طرح ایک دوسرے کو نوچ کھاتے۔
گجرانوالہ پہنچ کر مرحلہ ء عظیم یہ تھا کہ والد صاحب قبلہ کے ہوتے ہوئے بچے کو کیسے دیکھیں اس کے لئے کئی گھنٹے صرف ہوئے اور ہم نے اپنے اس لخت جگر کو غور سے دیکھا۔کشادہ پیشانی موٹی ذہین آنکھیں سرخ و سفید ٹماٹر جیسا رنگ یہ تھے ہمارے ڈاکٹر نبیل حسن انہیں دیکھ کر خیال آیا کہ ہم بھی کسی زمانے میں خوبصورت ہوتے ہوئے ہوں گے ہم بھی کسی کی آنکھ کا تارا ہوتے ہوں گے۔ہمارے ہاں ماں باپ کے ہوتے ہوئے اپنی بیوی کو مخاطب کرنا ایسے ہی تھا جیسے ہم نے کسی غیر عورت کو چھیڑ دیا ہو۔نوید کی امی نوید کے ابو ساری عمر یہی کچھ رہا سعیدہ تو ہم نے والد صاحب کی رحلت کے بعد نام لیا گویا ابا جی کے دنیا سے جانے کے کروڑوں نقصانات کے بعد صرف اپنی اکلوتی بیوی کا نام لینے کی مسرت حاصل ہوئی اور اس بے پایاں مسرت کا استعمال تا دم تحریر بہ فضل اللہ حاصل ہے۔اب آج کل کے بچے تقابلی جائزہ لے لیں۔
نبیل کا بچپن بڑا پیارا گزرا زیدہ تر جدہ کے عزیزیہ محلے میں گھر کے باہر سائیکل چلاتے ہوئے دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے۔حی السلامہ میں ہم کچھ عرصہ ایک گھر میں رہے ہیں وہاں اس کی وہ شرارت نہیں بھولتی کچن میں اخبروں کو آگ لگا دی اور امی سے آن کر کہا امی چولہے کو آگ لگئی ہے آگ میز پر اخبارات کو لگائی اور اس کا عکس چولہے میں دیکھ کر اطلاع کر دی۔پڑھائی میں بڑا تیز رہا لیکن TAPکہنا اس کے لئے مشکل لفظ تھا میں نے تنگ آ کر کرسی پر کھڑا کر دیا اور ٹونٹی کی طرف اشارہ کر کے اسے کہنے پر مجبور کیا ٹوٹی جی تسی ٹیپ او۔آج بھی اسے کہہ کر تنگ کرتا ہوں۔ذہین و فطین اتنا کہ ایک بار ریاض اسکول میں ایک اثناء عشری استاد سے مار کھا آیا عبداللہ بن سباء کے بارے میں کچھ بول دیا جو انہیں ناگوار گزرا۔
ہندوانہ یعنی تربوز اس شوق سے کھا جاتا کہ عش عش کر اٹھنے کو جی چاہتا تھا۔جملے کسنے کوئی اس سے سیکھے آج کل ایک پیج کا ایڈمن ہے جہاں وہ ذہانت وفطانت کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔نبیل کی پیدائش کا دن ہے آج اللہ نے اسے ٣٠ سال کا کر دیا ہے اس کے دو بچے بھی ہیں۔اگر میں ان دنوں کی بات کروں جب نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ہماری دلی خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھی اپنی بیگم کے ساتھ اکیلے نکلیں۔آج کل ہنی مون کا رواج ہے ہمارے ہاں بھی اس قسم کے مون ہوا کرتے تھے مگر یہ چاند کسی اور کے گھر نکلا کرتا تھا۔اللہ نے ہمیں اس زمانے میں مرسیڈیز بنز عطا کر رکھی تھی جو گجرانوالہ میں صرف دو تین افراد کے پاس ہوا کرتی تھی ایک دن پروگرام بنا کہ چلو مری چلتے ہیں۔
اگلے دن دیکھا تو قبلہ والد صاحب اور محترمہ بے جی بھی تیار پائی گئیں ان کے چہروں کی خوشی دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ ہنی مون ہمارا نہیں ان کا ہے۔یقین کیجئے دلی خوشی ہوئی ہمارے بیٹھنے کی ترتیب بھی عجیب تھی آگے میں اور قبلہ والد صاحب جناح کیپ ٹیڑھی سی گرج دار لہجے کے حامل چوڑا چکلہ سینا والد صاحب ایک روایتی جاگیر دار کے گیٹ اپ میں بہت اچھے لگے میں لمبے بال منحنی چھ فٹا شخص لیفٹ ہینڈ مرسیڈیز اور پیچھے نو بیاہتا بیگم اور بے جی۔بلکل سکھ گھرانے کی ترتیب کی طرح ایک سکھ کا ہمسایہ اس سے چارپائی مانگنے آیا تو اس نے جواب دیا بھائی جی ہمارے گھر دو چارپائیاں ہیں ایک پر میں اور ابا جی سوتے ہیں اور دوسری پر مان ںی اور میری بیگم۔ہمسائے نے کہا بھائی جی!اچھی بات ہے چارپائی چاہے نہ دیں مگر ترتیب تو ٹھیک کر لیں۔
سوچتا ہوں ترتیب والد صاحب کے پیچھے بیٹھنے سے بھی ہو سکتی تھی مگر ایسا گناہ کبیرہ ہم کیسے کر سکتے تھے۔ خیر یہ شرارتی لمحے اپنے بیٹے کی سالگرہ پر یاد آئے ہیں۔نبیل ان ینگ ڈاکٹروں میں سے ہے جو بد قسمتی سے پنجاب میں پیدا ہوا ہے جس کا وزیر اعلی شہباز شریف ہے جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ سرکاری ملازمین کی زندگیاں اجیرن کر دینی ہیں۔میرے اس بیٹے کی شریک حیات بھی ڈاکٹر ہے وہ ایمن آباد میںجاب کرتی ہے اور نبیل جلال پور شریف میں ۔دو سال سے زاید عرصے سے خدمت خلق اب خدمت قلق بن چکی ہے۔حالت یہ ہے کہ ان کی حالت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ کوئی باپ کسی بیٹے کو طب کے شعبے سے وابستہ نہ کرے۔میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا جب کوئی بچہ یہ کہتا ہے تو جی کرتا ہے اسے نبیل اور ثناء کی زندگی کے معاملات دیکھنے کی ہدایت کروں گا۔
بے جی کہا کرتی تھیں او جانے ایک او جانے ہی ہے کہ اللہ پر چھوڑ رکھی ہے۔میرا پھولوں سے نازک بچہ جدہ میں پلا بڑھا حفظ قرآن دو سلا کے قلیل عرصے میں کیا اور پھر اپنے کلاس میٹس سے مل گیا انتہائی ذہین بزلہ سنج جگت باز ۔سب سے سوہنا دھیمے لہجے کا نبیل گرچہ آج کل مشکل میں ہے لیکن مشکلات کسے نہیں پاکستان کا ہر نوجوان نبیل کی طرح ہے اس کے سامنے بڑے چیلینجز ہیں اسے آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا۔اس کے افسران ان دونوں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔نیڈو کے ڈبے مشکل سے خریدنے والے اس جوڑے کی تعیناتی میڈیکل لیگل افسیر کی حیثیت سے رہی ہے بیٹی بتاتی تھیں ایک ایک کیس کے لاکھ دو لاکھ آفر ہوتی تھی مگر آپ نے قسم دے رکھی تھی کہ میرے جسم کی بوٹیاں نوچ کر کتوں کو ڈالنا ہے
تو رشوت لینا۔ ہم گجر لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں ہماری بے ایمانیاں دہشت گردیاں بھی بلند اور ایمان داریاں بھی اوج ثریا پر۔نبیل میرے بچے میرے پاس تمہاری سالگرہ پر یہی تحفہ ہے ۔ایمان داری سے جیو ایمان داری سے مرو۔ہم جنونی اور پاگل پی ٹی آئی کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مظلوم کا ساتھ ہر موڑ پر دیا جیلوں میں جا کر ڈنڈے سوٹے کھا کر۔ہمیں اجر دینا ہے تو صرف اللہ نے صرف اس ذات نے جو تیرا بھی میرا بھی اور اس کائنات کے ہر ہر اس فرد کا جس کے پیٹ کا ڈوزخ وسیع بھی ہے عریض بھی ملاں ڈیزل ہو زرداری یا نواز شریف۔
وقت وہ بھی نہیں رہا جب میں جدہ جیل میں تھا نواز شریف کا ساتھ دینے کی جرم میں اور وقت یہ بھی نہیں رہے گا اسی نواز شریف کی گندی پالیسیوں کی وجہ سے در بدر تو بھی ہے اور میں بھی۔اللہ سارے پاکستان کے بچوں کو سلامت رکھے۔آج وہ اپنے بھائی نوید کے پاس ہے جس کی ایک گاڑی تین ماہ پہلے چوری ہو گئی ہے اور دوسری پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔اللہ تعالی شیطان کے شر سے محفوظ رکھے ۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری