لاہور (ویب ڈیسک) مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی ٹی وی چینلز پر عمران خان کے خلاف گرجنے برسنے سے پہلے ایک نظر اپنے اپنے دور کے اعداد و شمار پر ہی ایک نظر ڈال لیں۔ ریکارڈ کے مطابق 2014 سے 2017 تک‘ صرف چار سالوں میں پنجاب میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں 1325 افراد ہلاک کیے گئے۔ نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے سے گریز کرنے والے یہ لوگ گزشتہ پانچ دنوں سے ہر ٹی وی چینل پر ساہیوال واقعہ کی آڑ میں اچھل اچھل کر عمران خان سے استعفیٰ طلب کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے اس ایک جعلی پولیس مقابلے کی بنیاد پر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ اور نکمی حکومت کے الزامات کی بھرمار سنتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ آخری حد سے بھی گزر چکے ہیں۔ جو آئینہ دکھانے جا رہا ہوں‘ اس میں ساہیوال کے سابق انسپکٹر فرخ وحید اور لاہور کے انسپکٹر عابد باکسر کا عکس شامل نہیں ہے‘ نہ ہی ماڈل ٹائون کے منہاج القران اور اس کے گوشۂ درود میں بیٹھے ہوئے 87 افراد کے زخمی ہونے‘ اور 14 کے قتل کی درد ناک داستان دہرا رہا ہوں‘ بلکہ پنجاب کے ان 1325 افراد کے قتل کا عکس دکھا رہا ہوں جو خادم اعلیٰ پنجاب کے سنہرے دور میں کیے گئے (دیکھیے دی نیشن 12 فروری2018 ‘ اور ڈان 15نومبر 2017‘ اور 29 دسمبر 2018)۔”آپ لوگ خیر سے آج کس چیز کی ہڑتال کر رہے ہیں؟‘‘ وکالت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک نہایت ہی قریبی عزیز کو گھر میں آرام کرتے دیکھ کر پوچھا‘تو کہنے لگے: ساہیوال میں بے گناہ والدین اور ان کی بیٹی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وکلا برادری نے مکمل ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے‘ اس لیے مجبوری سے گھروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے: ہمارے جیسے ہزاروں وکلا اب اپنے تمام دوست اور عزیز وکلا کے علاوہ ہر بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بارز سے مؤدبانہ سوال کرنے کی گستاخی کر رہے ہیں کہ ”ساہیوال واقعہ کے علاوہ پنجاب بھر میں گزشتہ صرف چار برسوں میں‘ انگریزی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق‘ جو 1325 پولیس مقابلے ہوئے کیا‘ اس پر بھی بار کونسل نے کبھی ہڑتال کی تھی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کی پنجاب میں بادشاہی کے چار برسوں کے دوران ہونے والے یہ تمام تیرہ سو سے بھی زائد پولیس مقابلے کسی کونسل کے ماتھے پر کوئی بل نہ ڈال سکے؟ یہ جو پنجاب کے 13 سو سے زائد لوگ پولیس مقابلوں میں پار کر دیے گئے وہ بھی تو آخر انسان تھے۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ جو پولیس مقابلہ عمران خان کی حکومت میں ہو اس پر ہڑتال اور جو خادم اعلیٰ کی بادشاہی میں کیا جائے‘ اسے حلال اور جائز سمجھ کر چپ رہا جائے؟۔کیا رانا مقبول کی پراسیکیوشن اس قدر فائدہ مند رہی کہ ان کی راج شاہی میں ایک پولیس مقابلے پر بھی کسی کی آنکھ نم نہ ہو سکی؟ چلیں ایک سوال اور آپ سب سے پوچھ لیتے ہیں: ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے فیصل آباد، سرگودھا اور گوجرانوالہ کے وکلا نے اپنے اپنے شہروں میں ہائیکورٹ کے بنچ قائم کرنے کے لیے ہڑتالیںکیں اور سب نے دیکھا کہ ایک گروپ نے فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر‘ جو ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ کے دفتر میں گھس کر ان کے ماتحت افسران کے سامنے انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا۔ سول سروس سے تعلق رکھنے والے ایک شریف اور انتہائی ایماندار ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کی جانے والی یہ بد سلوکی ٹی وی کیمروں کے ذریعے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیل گئی۔ کیا یہ طریقہ مناسب تھا؟ کیا دنیا کے کسی بھی قانون اور آئین کی کسی بھی شق میں یہ کام جائز کہا سکتا ہے؟ کیا یہ زیادتی نہیں تھی؟ اگر تفصیل سامنے لائوں تو میرے محترم دوستو‘ اب تک سینکڑوں مرتبہ ماتحت عدلیہ کے معزز ججوں اور پولیس کے افسروں اور اہل کاروں کو عدلیہ کی حدود میں زد و کوب کیا گیا۔ کیا یہ کسی بھی شریف اور بے گناہ انسان پر حملہ نہیں؟ بھلا ایک ڈپٹی کمشنر ہائیکورٹ کا بینچ بنانے کے مطالبے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟۔ساہیوال میں سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے معصوم اور بے گناہ جانوں کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں ہونے والے انسانی نقصان پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ وہ دکھ‘ تکلیف اور اذیت زندہ بچ جانے والے ان بچوں سے پوچھیے‘ اب اپنے ماں باپ کی شفقت محبت اور سائے کے بغیر جن کا انہیں عمر بھر سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سفاکیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی رعایت یا ہمدردی انتہائی گھنائونا اقدام ہو گا‘ اور ایسا کوئی اقدام ہوا تو ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ بہت ہو چکا‘ اب ان جعلی پولیس مقابلوں کی ہمارے معاشرے اور اداروں میں رائج رسم کو ختم کرنا ہو گا۔ دس فروری 2018 کی وہ رپورٹ بھی مسلم لیگ نواز کے شاہ نواز رانجھا، رانا افضل جیسے لوگوں اور خیر سے ان کے موجودہ دست راست چوہدری منظور اور کائرہ سمیت مولا بخش چانڈیو اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے سامنے لانا چاہوں گا تاکہ ان تمام رہنمائوں کو ساہیوال واقعہ پر عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے سے پہلے زیادہ نہیں تو تھوڑا سا ہی خیال آ جائے کہ دوسرے کی آنکھ کا شہتیر دیکھنے سے پہلے اپنے دامن پر جمے ہوئے خون سے اٹھنے والی بد بو سے تو ناک ڈھانپ لیں۔انہیں یاد ہو گا کہ نشتر کالونی لاہور میں 24 سالہ شہباز بٹ ولد اللہ رکھا نام کے ایک نوجوان کو بھی ایک پولیس مقابلے میں پار کیا گیا تھا۔ جنوری 2018 میں گرین ٹائون لاہور کے ایک چودہ سالہ لڑکے کو اس شبہ میں قتل کیا گیا کہ وہ چوری کر کے بھاگ رہا تھا‘ اور پھر ملت پارک لاہور میں 26 دسمبر 2016 کو ان تین نوجوانوں کو بھی کیسے بھول سکتے ہیں جنہیں پولیس مقابلے میں پار کیا گیا اور پھر عتیق اور ناصر نام کے وہ نوجوان لڑکے بھی یاد ہوں گے جنہیں خادم اعلیٰ کے سنہری دور میں جولائی 2017 میں پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اگر کسی ٹی وی چینل پر کبھی آنے کا اتفاق ہوا تو میں پنجاب میں نواز اور شہباز شاہی اور سندھ میں گزشتہ گیارہ برسوں میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی شہنشاہی میں کیے گئے پولیس مقابلوں کا آئینہ مکمل تفصیل کے ساتھ ان کے تمام ترجمانوں کے سامنے رکھ دوں گا۔ فی الحال ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کا ایک حصہ سب کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ جس کے مطابق ”جنوری 2014 سے مئی 2018 تک سندھ میں 3345 پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے۔ کالم میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے مکمل تفصیل کیلئے جگہ نہیں‘ لیکن صرف کراچی اور حیدر آباد اضلاع میں رائو انوار کے کھاتے میں 444 پولیس مقابلے بتائے جا رہے ہیں‘ اور یہ رائو انوار وہ شخص جسے آصف علی زرداری میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر انتہائی فخر سے اپنا بہادر بچہ کہتے ہیں۔ یہ خطاب آپ سب نے بھی متعدد مرتبہ ٹی وی کی سکرینوں پر ان کے منہ سے گونجتا ہوا ضرور سنا ہو گا۔ تو حضور ان کا یہ خطاب نہیں بلکہ وہ آئینہ ہے جسے دیکھتے ہوئے آپ سب لرزنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ بھلا ہو عمران خان کے میڈیا سیل کے شہنشاہوں کا‘ اور فواد چوہدری کا کہ ساہیوال واقعہ کو اچھے اور منا سب طریقے سے سنبھال ہی نہ سکے یا پھر کہہ لیں کہ جان بوجھ کر خراب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ساہیوال میں سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے معصوم اور بے گناہ جانوں کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں ہونے والے انسانی نقصان پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ وہ دکھ‘ تکلیف اور اذیت زندہ بچ جانے والے ان بچوں سے پوچھیے‘ اب اپنے ماں باپ کی شفقت محبت اور سائے کے بغیر جن کا انہیں عمر بھر سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سفاکیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی رعایت یا ہمدردی انتہائی گھنائونا اقدام ہو گا۔