لاہور)ویب ڈیسک(جیتی جاگتی سیاست کی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان، امید کی کرن اور مریم نواز صاحبہ ڈھلتی رات کا وہ ستارہ ہیں جو صبح سے پہلے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔ جب سے بحیثیت حکمران پاکستان میں اور پنجاب کے صوبے کی حکمرانی میں عمران خان سب کو شکست دے کر نمودار ہوئے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کو چب سی لگ گئی ہے ۔ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوگئی ہیں ۔
معروف صحافی مخدوم محمد ذکی ایڈووکیٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔جناب نواز شریف جب سے نظریاتی سیاستدان ہوئے ہیں ، مسلم لیگ (ن) شکست و ریخت کا شکار ہوگئی ہے ۔ مریم نواز خوش تھیں کہ ان کی صاحبزادی کی تقریب میں نواز شریف نے بھارت کے مسلم دشمن وزیراعظم نریندر مودی کو بلا کر تقریب کی شان بڑھادی ہے۔مگر یہی تباہی کا نقطہ آغاز تھا۔ اگر آپ دشمن ملک کے وزیراعظم کو بلا کر فوج اور پاکستان کے عوام کا منہ چڑا رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں ۔
عسکری قیادت نے بظاہر فیصلے کئے ۔ نواز شریف نے دہشتگردی کے حوالے سے انکے Point of viewکی حمائت کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں سے پتے جھڑنے لگے ، جیسے خزاں میں جھڑتے ہیں ۔ عسکری قیادت کیخلاف وار نے پنجاب میں ہلچل مچا دی لوگ PTIکی جانب دیکھنے لگے ۔ الیکشن میں نواز شریف کو شکست ہوگئی۔ ایک تو جیل پھر یہ صدماتی تقدیر ، قسمت میاں شریف کی بے تکی سیاست پر ڈوبتی چلی گئی۔جناب نواز شریف کی ایک واضح غلطی یہ بھی تھی کہ وہ پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی کیخلاف تھے ۔ KPKمیں وہ ولی خان گروپ اور مولانا فضل الرحمن سے سمجھوتا کرتے تھے‘ بلوچستان میں اچکزئی وغیرہ سے ۔ اربن سندھ میں MQMسے اور اندرونی سندھ میں PPسے معاہدے کی سیاست کرتے تھے ۔ جناب شہباز شریف، کراچی سے کھڑے ہوئے اور ڈھیر ہوگئے ۔ انہیں سندھ کی تنظیم اور مشاہد اللہ خان نے رسوا کر دیا ۔
اسکے برعکس عمران خان کراچی کیلئے بھی امید کی کر ن بن گئے۔ کراچی سے MQMکا تاریک دور رخصت ہوااور صبح نو طلوع ہوئی۔ اہل کراچی کیوں خوش نہ ہوں ، صدارت پاکستان ان کو ملی اور گورنر ان کا اپنا ہے۔ صوبوں میں خاص طور پر سندھ میں تنظیم نہ کرنے کی سیاست ناکام ہوگئی عمران خان کو پنجاب کے بعض اضلاع اور کراچی سپورٹ نہ کرتے تو بھی وہ پیچھے رہ جاتے … دیگر صوبوں سے بے نیازی کی سیاست ناکام ہوگئی اور نیازی کی سیاست کامیاب ہوئی ۔ یہ ن لیگ کا المیہ ہے ۔جناب شہباز شریف نے بھائی کی محبت کا حق ادا کر دیا ، نواز شریف کو ہمیشہ محب وطن اداروں سے ٹکرائو سے گریز کا مشورہ دیا ۔ بے چارہ شہباز شریف اپنے مشوروں کی قیمت جیل میں ادا کر رہا ہے۔ مریم نواز جیل سے گھبراتی ہیں انہیں چپ سی لگ گئی ہے۔ شہنشاہی سیاست دم توڑ چکی ہے۔لاہور نے ساتھ دیا مگر حکمرانی تو PTIکی ہے۔ منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ کیا ابھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’تبدیلی‘‘ آگئی ہے۔
؎ اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
جناب عمران خان کا خواب انکی تنہا جدوجہد نے اور قسمت نے پورا کر دیا۔ وہ امید کی کرن ہیں مگر انکی بھی آزمائش کا آغاز ہوگیا ہے۔ تجربے کی کمی بھی آڑے آ رہی ہے۔ مگر عمران خان کی نیت صادق ہے۔ بے پناہ معروفیت ان کی صحت کو متاثر کر سکتی ہے ۔ عمران خان کی بیگم خاتون اول ایک چینل پر انٹرویو دینے کیلئے راضی ہوئیں۔ ایک پڑھی لکھی ، جدید تہذیب سے آشنا مسلم ثقافت کی علمبردار اور ثابت قدم خاتون نے بتلایا کہ عمران سچی نیت سے قوم کیلئے شب و روز محنت کر رہے ہیں ۔ روحانیب سے سرشار خاتون اول کے کرشمات سامنے ہیں ۔پاکستان میں پہلی بار ایک مڈل کلاس شخص نے سب کو پچھاڑ کر کامیابی حاصل کی ہے۔ عمران خان کی حکومت کی نگہبانی پاکستان کے عوام کر رہے ہیں۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے کل سیاستدان عمران خان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ وہ عوام کی امید بن کر وزیراعظم بن گیا۔ آج وزیراعظم کا مذاق اڑاتے ہیں ،اڑاتے رہیں ۔وہ تو شاہین بن کر پرواز کر رہا ہے۔عمران خان ایک عظیم لیڈر ہے جو پاکستان کی اور عوام کی قسمت بدل دینے کا دعویدار ہے ۔ کیا دعویٰ سچا ہے۔ اس کیلئے ایک شخص رات دن محنت کر رہا ہے ۔ بظاہر سرمایہ داروں جاگیرداروں کا دور ختم ہوا ۔ مڈل کلاس اور غریب عوام خوش ہیں ۔
اقبال کی راہ اپنانے والا عمران خان شان اور وقار سے پاکستان کا وزیراعظم ہے… اقبال نے کہا تھا
تو رہ نور دشوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندوتیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول