لاہور: سال 2016 میں حکومت نے عوام کے منفی ردعمل سے بچنے ککیلئے نواز شریف کی بیماری کے بارے میں زیادہ تفصیلات ظاہر نہ کرنے کی ایک کوشش کی۔
یہ سال 1974 کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے، جن کا خفیہ علاج پروفیسر ڈاکٹر نصیر شیخ نے کیا۔
اس بات کا دعویٰ مذکورہ ڈاکٹر نے اپنی سوانح حیات میں کیا، جس کی اشاعت مصنف کی خراب صحت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
کتاب کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے اصرار پر پروفیسر ڈاکٹر نصیر شیخ کو تقریباً 5 ہفتے تک اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔
کتاب کے ایک باب میں درج ہے، ‘ذوالفقار علی بھٹو کی بیماری کو اس قدر حکمت عملی کے ساتھ خفیہ رکھا گیا تھا کہ عوام کو اس بات کی خبر نہ ہوسکی کہ وہ شدید بیمار تھے اور ذہنی طور پر استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہوگئے تھے’۔
پروفیسر شیخ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات اگست 1971 میں ہوئی، جب انھوں نے کراچی کے ایک کلینک میں ان کا ہرنیا کا کامیاب آپریشن کیا، تاہم انھوں نے کتاب میں اس حوالے سے تفصیلات بیان نہیں کیں کہ 1974 میں وہ کون سی شدید بیماری تھی، جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچا۔
انھوں نے مزید لکھا، ‘1975 میں انھیں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوایا تاکہ وہ ان کی صحت کی دیکھ بھال کریں اور ساتھ ہی انھیں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا’۔
پروفیسر شیخ نے دعویٰ کیا کہ اس دوران انھوں نے صحت کے شعبے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کیں اور اسلام آباد ہسپتال، لاہور کے شیخ زید ہسپتال اور پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ اور کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال کی ترقی کا کریڈٹ بھی اپنی ٹیم کو دیا۔
علاوہ ازیں انھوں نے ڈرگ ایکٹ آف 1976 کے بارے میں بھی فخریہ انداز میں بات کی اور اسے پاکستان کی آزادی کے بعد سے واحد ایکٹ قرار دیا، جس کا مقصد فارماسوٹیکل انڈسٹری کو کنٹرول اور باقاعدہ کرنا تھا۔
پروفیسر نصیر شیخ نے لکھا، ‘جب جنرل ضیاء الحق نے 4 جولائی 1977 کو اقتدار سنبھالا اور مارشل لاء نافذ کیا تو انھوں نے سول حکومت کے 15 سینئر ترین ارکان کو گرفتار کیا اور انھیں جیل میں قید کردیا’۔
پروفیسر شیخ بھی ان لوگوں میں شامل تھے، جنھیں ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا، بدسلوکی کی گئی اور پھر جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔
بعدازاں ان سے کئی دنوں تک سول اور ملٹری عہدیداروں کی جانب سے تفتیش کی جاتی رہی، گرفتار افسران کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہی دیں۔
انھوں نے لکھا کہ وہ اپنی ایماندارانہ پوزیشن پر ڈٹے رہے، انھیں 8 ماہ تک جیل میں قید رکھا گیا اور ان کے دفتر سے معطل کردیا گیا، جبکہ ان کے بوڑھے والدین اور اہلخانہ کو بھی ہراساں کیا گیا۔
بعدازاں رہائی کے بعد پروفیسر شیخ چند قریبی دوستوں کے ہمراہ افغانستان اور ترکی کے راستے لندن جانے میں کامیاب ہوگئے، جبکہ ان کی پوری جائیداد جنرل ضیاء کی جانب سے ضبط کرلی گئی۔
اپنے پہلے دورِ وزارت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پروفیسر نصیر شیخ کو پاکستان واپس بلوایا اور انھیں پوری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں کی تنظیم نو کا ٹاسک دیا۔
پروفیسر نصیر شیخ امریکی ریاست فلوریڈا میں مقیم اور گذشتہ کچھ وقت سے علیل ہیں، جس کی وجہ سے ان کی سوانح حیات کی اشاعت تاخیر کا شکار ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز