تحریر : عماد ظفر
طالبان کمانڈر ملا منصور اختر ایک ڈرون حملے میں پاکستان کی حدود میں مارا گیا.اس سے پہلے ملا عمر اور اسامہ بن لادن بھی پاکستان کی حدود میں ہی ہلاک ہوئے .لیکن ہم اب بھی دنیا میں چھاتی ٹھوک کر اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور ہم اپنی سرزمین کبھی بھی دہشتگردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے. ملا منصور کی ہلاکت کے بعد سے اب تک دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اسی طرح خاموش ہے جیسے ایبٹ آباد واقعے میں اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد تھی. اب تو خیر ایسے واقعات پر نہ کوئی حیرانگی ہوتی ہے اور نہ ہی غصہ آتا ہے.البتہ جب دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک ہے اور ہم اس کی سرحدوں کی پامالی نہیں ہونے دیں گے تو ہنسی آ جاتی ہے.کون سی سرحدوں کی پامالی اور کہاں کی سالمیت۔جب امریکی افواج کا دل چاہے کبھی ڈرون کے زریعے اور کبھی خفیہ آپریشنز کے زریعے ہماری خود مختاری کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں اب تو حالت یہ ہے کہ افغانستان بھی ہماری سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی دھمکیاں دیتا ہے۔
نوشکی میں طالبان کمانڈر ملا منصور کی ہلاکت اور انگوڑ اڈہ کی بارڈر چیک پوسٹ کے انتظامی معاملات افغانستان کے سپرد کرنا واضح اور واشگاف الفاظ میں بتاتے پیں کہ ہمارے آقا اور فوجی بجٹ کا بہت بڑا حصہ خیرات میں دینے والے انکل سام اب ہماری حرکتوں سے سخت نالاں ہیں اور ہم پر ہرگز بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں. انکل سام کا دہرا معیار بھی خوب ہے وہ طالبان جو ان کو فائدہ دیتے ہیں انہیں ہرگز کچھ نہیں کہا جاتا اور وہ طالبان جو انکل سام سے لڑیں انہیں فورا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔
انکل سام کی انہی پالیسیوں کے باعث آج دنیا بھر میں دہشت گردی کا عفریت دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے.خیر انکل سام تو یہ افورڈ کر سکتے ہیں کہ کم سے کم انہوں نے اپنی سرحدوں اور اپنے شہریوں کو تو دہشت گردوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے لیکن ہم لوگ گاوں دیہات میں رہنے والے پنڈ کے مراثیوں کی مانند ہیں جو کہ پنڈ کے چوہدری کو خوش کرنے کیلئے خود اپنا مزاق بنواتے رہتے ہیں. انکل سام نے افغانستان میں خود طالبان کو پیدا کیا اور ہم نے انکل سام کو خوش کرنے کیلئے ہر ممکن طریقے سے طالبان کی معاونت کی.پھر ہمیں یہ خوش فہمی ہو گئی کہ ہم طالبان کے زریعے پنڈ یعنی دنیا پر قبضہ کر سکتے ہیں حالانکہ کہاوت بھی ہے کہ پنڈ پورا مر بھی جائے تو بھی مراثیوں کا بچہ چوہدری نہیں بنا کرتا.اب حالات یہ ہیں کہ پنڈ پر قبضے کے چکر میں خود ہم اپنا گھر جلاتے جا رہے ہیں لیکن اپنی اس انوکھی ضد سے باز نہیں آ رہے۔
ہمیں آج بھی لگتا ہے کہ جیسے طالبان ہمارے مسیحا ہیں اور یہ ہمارے نامکمل خوابوں کو پورا کریں گے.آج تک ہر بڑا دہشت گرد ہماری ہی سرزمین سے یا تو گرفتار ہوتا ہے یا مارا جاتا ہے لیکن کمال ڈھٹائی سے ہم آنکھیں بند کر کے ایک ہی راگ الاپے جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ہماری سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.حالیہ واقعہ جو طالبان کمانڈر ملا منصور کی ہلاکت کے متعلق ہے یہ بذات خود اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے کہ اس بار ڈرون حملہ بلوچستان میں کیا گیا. خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں ڈرون حملوں کا خاموش معاہدہ انکل سام کے ساتھ تو موجود ہے لیکن بلوچستان کے حوالے سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں یوں 2 مئی ایبٹ آباد کے آپریشن کے بعد یہ ایک اور بڑا آپریشن ہے جس میں پاکستان کی سرحدوں کا مزاق اڑاتے ہوئے ایک بار پھر یہ یاد دلایا گیا کہ انکل سام اصل باس ہے اور اس کے نزدیک ہماری اوقات کرائے کے لڑنے والوں سے زیادہ نہیں۔
دوسری جانب ملا منصور کی ہلاکت کے بعد اب طالبان کی سربراہی جلال الدین حقانی کو ملنے کا امکان ہے اور حقانی نیٹ ورک پاکستان کی پشت پناہی پر افغانستان میں بے حد مضبوط ہے یعنی حقانی کے بطور طالبان کے سربراہ کی خبر پاکستان کی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے ایک اچھی خبر ہے جس سے معاملہ صاف ہو جاتا ہے کہ شاید بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ہونے والے اس ڈرون حملے میں مخبر کا کردار ہماری دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ نے ادا کیا کیونکہ ملا منصور امن مذاکرات پر آمادہ نہیں تھے اور ہماری دفاعی ایسٹبلیشمنٹ کی سوچ کے مطابق جلال الدین حقانی نہ صرف امن مزاکرات پر آمادہ ہو جائیں گے بلکہ مزاکرات میں پاکستان کے مفادات کی بھی بھرپور طریقے سے دیکھ بھال کریں گے.اس سوچ پر سوائے تلملانے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ آج بھی اپنا گھر جل رہا ہے لیکن فکر افغانستان کے وسائل اور اختیارات کی جنگ میں حصہ لینے کی ہے۔
ہمارے وطن میں یہ تمام پالیسیاں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ بناتی ہے اور سیاستدانوں یا سول حکومتوں کا کردار ان پالیسیوں میں کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوتا. یہی وجہ ہے کوئی سچای یا انقلاب کا داعی صحافی یا اینکر اس معاملے پر آپ کو پروگرام کرتا نظر نہیں آئے گا. آخر کو حامد میر ،عمر چیمہ یا مرحوم سلیم شہزاد کی مثال سب کے سامنے ہے. کوئی زیادہ سوال ان پالیسیوں کے بارے میں اٹھائے تو اس کی محب وطنی مشکوک قرار دے دی جاتی ہے اور پھر بیچارہ یا تو مرحوم ہو جاتا ہے یا پھر مسنگ پرسن کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے.لیکن سوال آٹھانے والے سقراط کے قبیلے کے لوگ ہیں اس لیئے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔
اس سارے کھیل میں جو دفاع اور ناقابل تسخیر ملک ہونے کے نام پر رچایا جاتا ہے نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہوا ہے. ایک ایسی نا ختم ہونے والی تعصب اور دشمنی کی ان دیکھی جنگ جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور جس کا انجام نوشتہ دیوار ہے لیکن اسے پڑھنے کو ہماری دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ تیار ہی نہیں.آج بھی وہی انکل سام ہمارا قبلہ ہیں اور وہی شدت پسند ہمارے دوست جنہوں نے وطن عزیز میں دہشت اور وحشت کا ہولناک کھیل دہائیوں سے رچا رکھا ہے. وہی دہائیوں پر محیط ناکام دفاعی پالیسیوں کا تسلسل کہ ہم بھارت کے ٹکڑے کریں گے کشمیر اور فلسطین کو آزاد کروائیں گے .اسی جھوٹے خواب کو نسلوں کو پراپیگینڈے سے دکھا دکھا کر حب الوطنی اور مٹی سے محبت کے تصورات کی چادر تلے پہلے مشرقی پاکستان گنوایا پھر سیاچن پھر روس جہاد کے نام پر نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کشمیر کو آزاد کروانے کے چکر میں بلوچستان کو ساتھ رکھنا مشکل ہو گیا اس کے بعد کارگل کی پسپائی پھر ایبٹ آباد سانحہ دہشت گردی کے سینکڑوں حملے لاتعداد ڈرون حملے اور اب یہ بلوچستان میں بھی ڈرون حملہ. کم سے کم ہم جیسے پاکستانی جو جناح کے پاکستان کو مانتے ہیں اور ہمارے نزدیک جناح نے دفاعی نہیں بلکہ ایک فلاحی ریاست قائم کی تھی جسے دفاعی بیانیے نے ہائی جیک کیا اب ہم اب اس کھیل سے تنگ آ چکے ہیں۔
ایک طرف طالبان اور دوسری شدت پسند جماعتوں کی دہشت گردی کا خوف اور دوسری جانب معاشرے میں شدت پسندی کا بڑھتا اور پھیلتا ہوا ناسور .دنیا بھر میں بطور شدت پسند قوم کے شناخت اور خود اپنے وطن میں ہی سوال تک نہ اٹھانے کی اجازت. کیا یہ ڈر خوف کی فضا یہ شدت پسندی کا ناسور اور آئے روز وطن کی سرحدوں کی پامالی ہمارے دفاعی بیانیے کی ناکامی کا ثبوت نہیں. نفرتوں کی آگ میں خود اپنا گھر جل جایا کرتا ہے اور اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو لامکانی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے. دفاع بندوقوں اور بموں کے سہارے نہیں بلکہ ایجادات علم اور نت نئی تحقیقات کی بنا پر ہوتا ہے یہ بات ہم تب تک دہراتے رہیں گے جب تک کہ اس ملک کے اصل بیانیے کو واپس اپنی شکل میں نہیں لایا جاتا جو کہ محمد علی جناح کا بیانیہ تھا اور فلاح سے متعلق تھا اور جس میں دفاع کرنے والے اداروں کا کام سرحدوں کی حفاظت تھا نا کہ پالیسی سازی اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنا یا ان کے خلاف سازشیں کرنا۔
پالیسی سازی اور ڈپلومیسی بڑی مہارت کے کام ہیں اور یہ سیاستدان اور ٹیکنو کریٹ ہی کر سکتے ہیں نہ کہ دفاعی ایسٹبلیشمنٹ . ہم ایک غریب قوم ہیں اور اس قوم کے ڈھائی کڑوڑ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول نہیں جا پاتے کہ تعلیم کے شعبے پر ہمارے پاس پیسہ خرچنے کو ناکافی ہے لیکن دفاعی ادارے سالانہ 900 ارب روپے لے جاتے ہیں جس کا منتخب حکومتیں آڈٹ بھی نہیں کر سکتیں. دفاع آنے والے کل کا کیا جاتا ہے اور جس قوم کا آنے والا کل یعنی اس کے بچے پہلے ہی سے علم کے اجالوں سے دور ہوں تو وہاں ایٹم بم یا حتف میزائل رکھنا بے مصرف ہے. انکل سام پنڈ کا چوہدری اپنے دفاعی اداروں یا ہتھیاروں کی بدولت نہیں بلکہ علم تحقیق ایجادات اور اپنی فارچون ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دم پر ہے جبکہ ہم پنڈ کے مراثی خود اپنی ناکام دفاعی پالیسیوں کے باعث ہیں. بھلے ہی اپنے بچوں کو نصاب میں جھوٹ پر مبنی حقائق سکھائیں یا پراپیگینڈے کے دم پر انہیں قومی و تہذیبی نرگسیت کا شکار رکھیں یہ ڈیناہل نہ تو انکل سام کی چودراہٹ پر کچھ اثر ڈالے گا اور نہ پنڈ میں ہماری مراثیوں کی حیثیت پر.البتہ آنے والی مزید نسلوں کو ہم اس دفاعی بیانیے کی نظر کر کے صدیوں ایسے ہی پتھر کے دور میں جیتے رہیں گے۔
تحریر : عماد ظفر