تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
ایک بات تو ان دنوں سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والوں میں رسم کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے،وہ یہ کہ خرابی جس بھی سمت میں ہوالزام اس کا ہمسایہ ملک کے خفیہ اداروں پر ہی آنا چاہیے۔ چند دنوں سے بھارت میں بننے والی نئی فلم پی کے موضوع عام ہے۔ رانگ نمبر کی صدا بھی بلند ہورہی ہے۔ توہم پرستی کے موضوع پر بننے والی فلم ”پی کے” نے جہاں بالی ووڈ باکس اآفس پر تہلکہ مچا رکھا ہے،وہیں اسی فلم کی بدولت بھارت کی سیاست میں بھی گرما گرمی پائی جاتی ہے۔
بھارتی حکمراں جماعت کے رہنما سبرامنیم سوامی الزام عائد کرتے نظر آتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ فلم بنانے کے لئے پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اور انڈرورلڈ کی جانب سے فنڈ فراہم کئے گئے ہیں تاہم انہوں نے اپنے الزام میں یہ بات واضح نہیں کی کہ فلم کو فنڈ فراہم کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔اگر میں فلم پر بات کروں توفلم پی کے ایک ہندی فلم ہے جس کا موضوع عام ہندی فلموں سے بہت مختلف نظر آتاہے۔ بھارتی ادکار عامر خان اس فلم کے مرکزی کردار ہیں۔
اس فلم سے ہٹ کر بھی بات کروں تو عامر خان کی فلمیں ہمیشہ روایت شکن ثابت ہوتی ہیں ۔اس سے پہلے” تھری ایڈیٹس،تارے زمیں پر” کی کھڑکی توڑ کامیابی آرٹ کی صحیح روح کے ساتھ کامیابی ظاہر کرتی ہیں۔بھارتی ادکار ہمیشہ اچھوتے موضوعات لے کر آتے ہیں۔فلم پی کے شروع سے اختتام سے دیکھنے والوں اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ فلم کا انوکھا نام ”پی کے”عامر خان کے کردار سے تعلق رکھتا ہے۔دماغ کی کھڑ کیوں پر دستک دینے والے سوالات اٹھانے پر ہر کوئی مرکزی کردار کو پی کے نام سے پکارتا ہے۔یہ پہلو کتنا خوبصورت ہے کہ ہمارے ہاں جو سوال اٹھاتا ہے اسے سب بہکا ہوا سمجھتے ہیں ٹھیک اسی طرح اس فلم کے ہیرو کو سب پی کے۔
کے نام سے پکارتے ہیں۔جس خوبصورتی سے عامر خان نے مرکزی کردار نبھایا ہے یہ بات یقین اور دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس کردار کو عامر خان کے علاوہ کوئی کرتا تو شاید فلم کامیاب نہ ہوپاتی۔ فلمی دنیا میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایک اداکار پر مکمل پورے اترتے ہیں، عامر خان نے پی کے کے کردار کو نہایت ہی شاندار انداز سے ادا کیا ہے۔ فلم کے مشہور ہونے کی خاص وجہ بھی عامر خان اور فلم کا موضوع ہیں۔ فلم کی کہانی کو تحقیق اور خوبصورتی سے لکھا گیا ہے اور اسی طرح خوبصورتی سے فلمایا بھی گیا ہے۔ پی کے کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ جیسے انسان دوسرے سیاروں پر زندگی کو ڈھونڈنے کے لیے تحقیق کرتے ہیں اور ان پر جاتے ہیں اسی طرح ممکن ہے کہ کسی سیارے پر زندگی ہو اور وہاں کے لوگ اس دنیا پر تحقیق کے لیے آرہے ہوں۔
اسی طرح ایک اسپیس شپ راجھستان بھارت میں اترتی ہے جس میں سے پی کے یعنی عامر خان زمین پر قدم رکھتے ہیں۔ اسی صحرا میں پی کے کا ریموٹ کنٹرول جو دراصل اسپیس شپ کو واپس بلانے کا ذریعہ ہوتا ہے ایک چور چھین کر بھاگ جاتا ہے۔ فلم کی اصل کہانی دوسرے حصہ میں شروع ہوتی ہے جب پی کے اپنا ریموٹ کنٹرول تلاش کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ مختلف لوگوں سے پوچھتا ہے پولیس کے پاس بھی جاتا ہے سب اس سے یہی کہتے ہیں کہ تمہاری مدد صرف بھگوان ہی کرسکتا ہے یہاں سے وہ حصہ شروع ہے جس پر بھارت میں کافی شور جاری ہے۔ پی کے کو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ہر انسان بھگوان یا خدا کو مانتا ہے اور اس کی کہی باتوں پر عمل کرتا ہے اور عبادت کرتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ بھگوان کہاں ہے۔ پی کے پہلے تو اپنا مذہب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کس مذہب کا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے پھر وہ تمام مذاہب کی تعلیمات پر عمل شروع کردیتا ہے کہ شاید کسی مذہب کا بھگوان اس کی مشکل حل کردے۔
اسی طرح مذہب کے بارے میں فلم جاری رہتی ہے جس میں مذہب کے نام پر کافی غلط عمل اور باتیں جن پر عمل کیا جاتا ہے کو بھی سوال بنایا گیا ہے اسی طرح ایک دن پی کے(عامر خان) کو ایک دن اپنا ریموٹ نظر آتا ہے جسے ایک ہندو گرو بھگوان شیو کی ڈگڈگی کا ٹوٹا ہوا ”منکا” کہ کر کر اور اس سے کہانیاں جوڑ کر کہ جو اس کو دیکھے کا اس کی تمام مشکلیں حل ہوجائیں گی، ایک مندربنانے کے لیے پیسے جمع کررہا ہوتا ہے جہاں اس ریموٹ کو رکھا جائے۔ یہاں سے پی کے اپنا ریموٹ اس گرو سے حاصل کرنے کے لیئے کوشش شروع کرتا ہے جس میں پی کے کی مدد انوشکا شرما یعنی فلم میں جگت جنانی (جگو) جو کہ ایک صحافی ہوتی ہے کرتی ہے۔ یہاں سے رانگ نمبر والی کہانی شروع ہوتی ہے جو اس فلم کا سب سے دلچسپ حصہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ فلم دیکھیں کہ پی کے یہ رانگ نمبر کی کہانی دراصل ہے کیا۔ یہ فلم مذہب کے ٹھیکیداروں پر تنقید کرتی ہے نہ کہ کسی مذہب پر، یہ روایتی مذہبی رسومات اور طریقوں کو چھوڑ کر براہ راست خدا سے تعلق قائم کرنے پر زور دیتی ہے، بہت سے لوگ ابھی تک اس فلم کا مقصد سمجھ نہیں پائے۔
کوئی اسے دہریت کا پرچار کرتی فلم کہہ رہا ہے تو کوئی اسے اپنے مذہب کی توہین سے جوڑ رہا ہے۔کئی دوست اسے لادینیت کی حمایت میں دلیل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،مگر ایک بات تو طے ہے عامر خان نے اس فلم کے ذریعے بہت سے ایسے سوالات اٹھا دیے ہیں جن کے جواب تو دور کی بات ان پر بات کرنا بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ایک سوال جو سب سے زیادہ اہم ہے ہم سب کب تک رانگ نمبر کے چکروں میں پھنسے رہیں گے۔۔۔؟
تحریر: فرخ شہباز وڑائچ