ہفتے کے روز سانپوں کا عالمی دن منایا گیا۔ سانپوں کی معلوم اَقسام کی تعداد تقریباً 3،000 دنیا بھر کے جنگلات، برفیلی آب و ہوا اور سمندروں میں موجود ہیں۔ جو 30 فٹ ( 9 میٹر ) اور چند انچ کے سائز میں ہیں۔ اِن میں سے محض تقریباً 375 سانپ زہریلے اور انسانوں کے لیے خطرناک ہیں۔ ہر سال کسی زہریلے سانپ کا شکار بننے والےتقریباً 2.5 ملین انسانوں میں سے لگ بھگ ایک لاکھ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
سانپوں کا ذکر سن کر کوئی بھی شخص لا تعلق نہیں رہ سکتا، یا تو وہ اُن کے بارے میں دلچسپی اور پسندیدگی ظاہر کرے گا اور یا پھر اُن سے خوف کا اظہار کرے گا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کیا زہریلے سانپ واقعی خطرناک بھی ہوتے ہیں؟ کون سے سانپ ایسے ہیں، جن کے راستے سے ہَٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے اور اگر واقعی کبھی کوئی سانپ ڈَس لے تو کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سانپ بنیادی طور پر بے ضرر ہی ہوتے ہیں۔ یہاں جرمن شہر بون کے زوآلوجیکل میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وولف گانگ بوہمے سانپوں کے ماہر اور گزشتہ چالیس برسوں نے اُن پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مخصوص احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو سانپ بالکل خطرناک نہیں رہتے اور زیادہ تر راہِ فرار اختیار کر جاتے ہیں۔
زہریلے سانپوں میں بھی پائے جانے والے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:’’بے انتہا جارح زہریلے سانپ بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ڈَسنے کے معاملے میں سست واقع ہوئے ہیں۔ یہ سست سانپ کیوں نہیں کاٹتے، اِس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جن حالات میں وہ رہتے ہوں، وہاں اِس کی ضرورت ہی نہ پیش آتی ہو۔ ایسے میں اُنہیں اپنے مخصوص ماحول میں اِس جارحیت کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مثلاً سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، یہ اور بات ہے کہ جب کبھی بھی وہ ڈَس لیں تو معاملہ کافی خراب بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
چونکہ یہ سمندری سانپ عموماً نہیں کاٹتے، اِسی لئے مشرقِ بعید میں لوگ اِنہیں بآسانی ہاتھ سے پکڑ لیتے ہیں۔ دو دو میٹر تک لمبے اِن سانپوں کو وہاں مزے لے لےکر کھایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وولف گانگ بوہمے براعظم افریقہ میں پائے جانے والے مامبا سانپ کو خاص طور پر خطرناک بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ عام طور پر یہ سانپ بھی خطرے کی بُو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اپنے بچاؤ کے لئے وہ بہت جلد بہت ہی زیادہ جارحیت پر بھی اُتر آتے ہیں۔
مامبا تیز رفتاری سے حرکت کرنے والے اور درختوں پر چڑھنے والے سانپ ہیں۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندے یا چھپکلیاں اُن کی خوراک ہوتے ہیں، جنہیں مامبا سانپ محض اپنی تیز رفتاری کے ساتھ ہی قابو کر سکتے ہیں۔
ایک ہی قسم کے سانپ میں مختلف قسم اور شدت کا زہر ہو سکتا ہے اور اِس کا انحصار اُن کی خوراک پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر وولف گانگ بوہمے کے مطابق اگر زہر کا توڑ یا تریاق مغربی افریقہ کے کسی سانپ سے حاصل کیا جائے اور مریض کو پاکستان میں کسی سانپ نے کاٹا ہو گا تو وہ تریاق بالکل اثر نہیں کرے گا۔
سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہء صحت کے اندازوں کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زیادہ افراد کی جان بچانے کے لئے اُن کے اعضاء کاٹنا پڑتے ہیں۔ تاہم مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر زیادہ خطرناک ہوتا ہے، جو سیدھا انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور چند منٹ کے اندر اندر ہی دم گھٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔
سانپوں سے بچنے کا ایک راستہ ڈاکٹر وولف گانگ بوہمے یوں بتاتے ہیں:’’انسان کو ہمیشہ پاؤں زمین پر زور کے ساتھ رکھتے ہوئے چلنا چاہیے کیونکہ سانپ انتہائی لطیف سے ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب اُنہیں لگتا ہے کہ کوئی شخص زور زور سے پاؤں رکھتا ہوا آ رہا ہے تو وہ وہاں سے چلے جاتے ہیں۔‘‘
عالمی ادارہء صحت نے اب ایک ڈیٹا بینک جاری کیا ہے، جس میں زہریلے سانپوں کے بارے میں تمام تر معلومات، تصاویر، سانپ کے کاٹے کے علاج اور دیگر مفید مشورے دئے گئے ہیں۔