سعودی عرب کے شہزادے ولید بن طلال نے ملک میں خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ارب پتی شہزادہ ولید بن طلال نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی ختم کرنا نہ صرف ملکی معیشت بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے بھی ضروری ہے۔
سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین پر گاڑی چلانے پر پابندی ہے اور اس کے خلاف مہم چلانے والی حقوق انسانی کی کارکنوں کو گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
سعودی شہزادے کے مطابق یہ بالکل مناسب وقت ہے جب سعودی خواتین ڈرائیونگ کرنا شروع کر دیں۔
سعودی شاہی خاندان کے شہزادہ ولید بن طلال اس سے پہلے بھی ملک میں خواتین کے حقوق پر پابندیوں پر کھل کر تنقید کر چکے ہیں۔
شہزادہ طلال نے کہا:’ آج کے دور میں کسی خاتون کو گاڑی چلانے سے روکنا حقوق کا ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ کسی کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا یا اپنی خود مختار شناخت سے روکنا۔’
شہزادہ طلال نے کہا ہے کہ خواتین پر پابندی سعودی معیشت پر بھی بھاری ثابت ہو رہی ہے۔
ملک میں ٹرانسپورٹ کی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے دس لاکھ ڈرائیور ملازمتوں پر رکھے گئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر غیر ملکی ہیں اور قابل ذکر حد تک مہنگے ہیں۔
شہزادے کے اندازے کے مطابق اوسطً ایک خاندان ڈرائیور پر ماہانہ ایک ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے جس سے خاندان کی آمدن متاثر ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں ہر صبح تقریباً دس لاکھ خواتین کو کام پر جانے کے لیے محفوظ ذرائع ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
‘اس کی ذمہ داری اکثر مرد کو ادا کرنا پڑتی ہے جو کام چھوڑ کر اپنی بیوی اور بچوں کو کلینک یا دوسری جگہوں پر لے کر جاتا ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو خواتین خود کر سکتی ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ غیر ملکی ڈرائیور رکھنے کے لیے خاندان کی آمدن پر اثر پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہر برس سعودی عرب سے اربوں ریال بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔