تحریر: ۔مقصود انجم کمبوہ
ڈی پی او قصور نے فرائض میں غفلت برتنے پر 26 پولیس اہلکارفارغ کرد یئے ہیں جبکہ سب انسپکٹر سیف اللہ کو ناقص تفتیش اور کرپشن پر تنزلی کے بعد نوکری سے برخواست کردیا ہے فرائض میں غفلت برتنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے پر سب انسپکٹر محمد اصغر اور ہیڈ کانسٹیبل کو بھی نوکری سے فارغ کر دیا گیاہے کا م چور اہلکاروں کی اس محکمہ میں کوئی گنجائش نہیں یہ ہے ڈی پی او قصور کا خصوصی عزم ،جب سے سید علی ناصر رضوی نے بطور ڈی پی او قصور کا قلم دان سنبھالا ہے ضلع کی پولیس اضطرابی کیفیت سے دو چار ہے میں نے اکثر اہلکاروں اور افسروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سید علی ناصر رضوی نے سختی کی انتہاء کردی ہے وہ کسی غلطی کی معافی نہیں دیتے ۔یہ سچی حقیقت ہے
جب سے انہوں نے قصور میں قدم رکھا ہے کرپٹ مافیاء اور بد عنوان پولیس اہلکاران اور افسران کے کرپشن کرتے وقت نہ صرف ہاتھ بلکہ پورا جسم کانپتا ہے جبکہ ان سے پہلے ڈی پی او قصور کے ہوتے ہوئے کرپٹ تفتیشی افسران نے ضلع میں اودھم مچائے رکھا تھا ہماری اطلاع کے مطابق ان کا ایسے تفتیشی افسران سے براہ راست رابطہ تھا اور وہ جو چاہتے تھے انہیں ملتا تھا اور کرپشن کے بادشاہوں کا علاقہ میں سکہ چلتا تھا میرے شہر میں بھی کچھ ایسے راجے مہا راجے اور خانزادے ہیں جو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں انہیں یہ زعم ہے کہ سیاسی لیڈروں کی پشت پناہی کے باعث ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا بے شک سیاست نے اداروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں سیاسی گند بکھرانہ ہو ۔
ایسے اہلکاروں اور افسروں کو ہاتھ لگاتے ہوئے سربراہوں کے بھی ہاتھ کاپنتے ہیں کچھ عرصہ سے میرے شہر کے تھانے اور چوکیوں میں ایسے اہلکاروں اور افسروں کی تعیناتیاں وجود میں آئی ہیں جنہوں نے بڑے بڑے منشیات فروشوں اور ڈاکوئوںکو اپنا کام جاری رکھنے کا لائسنس دے رکھا ہے ہاں ایک بات ہے کہ ایس ایچ او تھانہ نے ایسے افراد کے خلاف کچھ کاروائیاں کی ہیں مگر کرپٹ مافیا ان کے مقاصد کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے ڈی پی او قصور کو میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ میرے شہر کے راجوں مہاراجوں اور چوہدریوں کی بھی خبر لیں گے میرے شہر کے بعض تھانیداروں نے کچھ ٹائوٹ نام و نہاد صحافیوں سے پکے یارانے بنا رکھے ہیں اور ان کے کہنے پر بعض ایڈیٹروں کے خلاف کچی پکی قانونی کاروائی کے ذریعے انہیں ذہنی مریض بنانے کی مذموم کوششیں بھی ہوئی ہیں ان ٹائوٹ صحافیوں کا کہنا ہے کہ فلاں فلاں افسران ہمارے یار ہیں اور ہم پیالہ ہم نوالہ ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ہماری مانیں گے ایک تفتیشی افسر جس نے غلط تفتیش کے ذریعے مقامی قومی اخبار کے ایڈیٹر کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر اس کا سکون برباد کیا اور ایک ڈی ایس پی کی پوری پوری پشت پناہی اسے حاصل تھی ۔
آج کل وہ تبادلہ کروا کر اس لیئے بھاگ نکلا ہے کہ اس کیس کے آخری فیصلے کے بعد اس کی ٹانگ پکڑی جائے گی اور وہ نوکری سے بھی جائے گا دکھ اس بات کا ہے کہ اس ایڈیٹر کو پولیس کے حق میں خبریں شائع کرنے کا بہت شوق تھا میرے سمجھانے کے باوجود اس نے اپنی روش نہ بدلی تب اس کے چودہ طبق روشن ہوئے جب اس کو کچہریوں اور تھانوں کے چکروں نے چکرا کر رکھ دیا ،میرے شہر کے ایس ایچ او کا بھی ایسے کرپٹ راجے مہاراجوں اور چوہدریوں سے ضرور پالا پڑرہا ہو گا مگر وہ ان کے خلاف نہیں بولیں گے کیونکہ سیاسی پشت پناہی ہونے پر ان کا کچھ نہیں بگڑنا ۔ڈی پی او قصور کو چاہیے کہ سپیشل پولیس کے ذریعے ان راجوں مہاراجوں اور چوہدریوںکی ضرور خبر لیں شہر کو شرابی ،کبابی اور لیٹرے اہلکاروں اور افسروں سے شہریوں کو نجات دلائیں میں نے شاید ہی کبھی کسی پولیس افسر یا اہلکار کی اتنی تعریفوں کے پل باندھے ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ پولیس سے دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی اس لیئے میں نے کبھی تھانے یا چوکی کا وزٹ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی تھانیدار سے دوستی کیلئے ہاتھ بڑھائے ہیں مجھے تو ایس ایچ او کوٹ رادھاکشن کا نام تک بھی نہیں معلوم ،ڈی پی او جی آپ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں زیادہ تعریف بھی اچھی نہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپکو اپنی حفاظت میں رکھے اور ڈھیر ساری کامیابیوں سے نوازے (آمین )
تحریر: ۔مقصود انجم کمبوہ