counter easy hit

صبح اخباروں میں پڑھا کہ عزت مآب چیف جسٹس نے غیرقانونی عمارتیں گرانے اور کراچی کا نیا پلان تیار کرنے کا حکم دیااور ساتھ ہی یہ بھی کہا ….. ’’وفاق ، سندھ اور نہ شہری حکومت کام کررہی ہے۔ کیا کریں کسے بلائیں۔۔۔۔۔۔۔صف اول کے صحافی نے کس شہر کا تذکرہ کیا کہ جسے کسی شخص کی نظر لگ گئی اور وہ شخص کون تھا

صف اول کے تجزیہ کار و کالم نگار حسن نثار نے اپنے کالم “تھینک یو چیف صاحب” میں وہ چار شہروں کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں لائل پور،اسلام آباد،میاں چنوں اور لاہور مگر پھر ایک ایسے شہر کا تذکرہ بھی کیا کہ جہاں ان کا آنا جانا تقریبا ہر دو تین ماہ بعد لگا رہتا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زوال سے قبل کی بات ہے کہ میں کراچی کے ان سرکاری دوروں کے دوران کام سے فراغت کے بعد ایک ہی کام تھا…. آوارگی۔ میرے دل و دماغ پر آج بھی وہی نسبتاً دھیما، دھیرا، دھلا دھلا، بھیگا بھیگا، دیر تک جاگتا روشنیوں کا شہر کراچی چھایا ہوا ہے ۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ اس شہر کو اک ایسے آدمی کی نظر لگ گئی جس کے بارے میں ملک بھر میں مشہور تھا کہ ان صاحب کی آنکھیں ہیمامالنی سے تو کیا، آپس میں نہیں ملتیں۔ یہی صاحب نواز شریف کے ’’موجد‘‘ بھی تھے…. میں تو بھٹو مرحوم کے زوال سے ڈیڑھ دو سال پہلے ہی اسلام آباد چھوڑ چکا تھا۔سو کراچی آمد و رفت بھی ختم لیکن آہستہ آہستہ خبریں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کراچی اجڑتا اور ادھڑتا جا رہا ہے۔ پھر نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ ’’ چورنگی‘‘ کم پڑتی گئی اور ’’چریائوں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ بوری بند لاشیں اور بھتوں کے ساتھ ساتھ چائنا کٹنگ جیسی اصطلاحیں سنائی دینے لگیں، تجاوزات کا کلچر عام ہوا اور پھر سنتا جا شرماتا جا۔’’جاگنے والوں جاگو مگر خاموش رہو‘‘اور زوال کا کمال ملاحظہ ہو:شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیرشہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیاروشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا لیکن ہمارے ہاں ایک محاورہ نما ہے ’’اَت خدا دا ویر‘‘۔ اور تو اور کراچی میں گندگی، غلاظت، کوڑا کرکٹ کی ’’کٹی پہاڑیاں‘‘ دیکھ کر ٹی وی سکرینوں سے بدبو اٹھتی محسوس ہوتی لیکن پھر وہی ’’اَت خدا دا ویر‘‘ منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہوا تو خبر آئی خیر سے ریلوے ٹریک پر ہی مارکیٹیں نہیں بنیں، مزار قائد بھی حصار میں ہے۔مدہم موہوم سے تعلق کے باوجود کراچی ہے تو اپنا ہی اور شاید :اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سےتیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی شام ٹی وی پر سنا، صبح اخباروں میں پڑھا کہ عزت مآب چیف جسٹس نے غیرقانونی عمارتیں گرانے اور کراچی کا نیا پلان تیار کرنے کا حکم دیااور ساتھ ہی یہ بھی کہا ….. ’’وفاق ، سندھ اور نہ شہری حکومت کام کررہی ہے۔ کیا کریں کسے بلائیں‘‘۔’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘تھینک یو چیف جسٹس صاحب!چل نکلی ہے تو کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جائے گی۔