قارئین کرام!طلباء اس ملک کا مستقبل ہیں۔ہر طالب علم کو وطن عزیز کی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہیے کچھ دنوں سے مختلف سیاسی جماعتیں طلباء تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ کررہی ہیں۔مگر آج پنجاب کے قریبا ہر سکول و کالج میں ظاہری طور پر طلباء تنظیمیں کے نام پر چند طلباء کے گروہ بنے پھرتے ہیں کہ جن کا مقصد فقط ایک دوسرے پر رعب و دبدبہ قائم کرنا۔آئے روز تماشے کرنا اور کالج انتظامیہ کے ناک میں دم کرنا ان کا منشور ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ان تنظیموں میں تو ایسے لوگ بھی اعلی عہدوں پر فائز ہیں کہ جن کا تعلیم کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ان جاہلوں کی پیروی کرتے ہوئے نجانے کتنے طلباء اپنا مستقبل تاریک کر دیتے ہیں۔جیسا کہ جوانی ہی ایسا وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنا کردار بنا یا بگاڑ سکتا ہے مگر افسوس کہ طلباء اپنی جوانی ان بے مقصد تنظیموں میں ضائع کرکے اپنا کردار خراب کردیتے ہیں اور مختلف جرائم کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔افسوس کہ ان کا مقصد گروہ بن کر لوگوں کو پریشان کرنا اور خود کو پھنے خان ثابت کرنا ہوتا ہے۔قارئین انسان اشرف المخلوقات ہے اسی لیے میں ان کے کیے کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔میں خود ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔چند پڑھے لکھے جاہل اور ان پڑھ پھنے خان مل کر گروہ بناتے ہیں اور پھر علاقے میں لوگوں کو پریشان کر کے اپنا سٹہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر یہ نادان بھول جاتے ہیں کہ یہ بدمعاشی نہیں بزدلی ہوتی ہے اور ایک طالب علم کبھی بدمعاش نہیں ہوسکتا۔ہمیں معاشرے میں موجود ان برائیوں کو روکنا ہے۔
یہ کچھ پس منظر آپ کو بیان کیا مگر یقین جانیے طلباء تنظیموں کا اصل مقصد دکانوں یا سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر لکھائی(وال چاکنگ)کرکے اپنے آپ کو عظیم سمجھنا نہیں ہے۔بدمعاشی اور جگے بازی کرنا نہیں بلکہ طلباء تنظیموں کا مقصد اپنے طلباء بھائیوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ہے۔میں خود مشروط طور پر ان تنظیموں کو بحال کرنے کے حق میں ہوں جن میں ایک یہ ہے کہ ان پڑھ پھنے خان اور جگے قسم کے لوگوں کو اس سے دور رکھا جائے۔کیونکہ ان کے اثرات طلباء پر ہمیشہ برے ہی مرتب ہوتے آئے ہیں۔دوسری یہ کہ ان کو کالج میں بلاوجہ ہنگامہ آرائی سے روکنا تاکہ پڑھائی کا ماحول خراب نہ ہو سکے۔تیسرا یہ کہ کسی قسم کی بے مقصد سرگرمیوں سے دور رہنا تاکہ انہیں مختلف برائیوں سے دور رکھا جاسکے۔قارئین کرام اگر ان تین شرائط پر طلباء تنظیمیں بحال ہوتی ہیں تو یہ بے حد فائدہ مند ثابت ہونگی ورنہ جس طرح حالیہ ان کی حالت ہے کہ پرائمری کے بچے بھی گروہ بنا کر ان کو مختلف سیاسی تنظیموں کا نام دیتے ہیں اور پھر اپنے ہم جماعتوں سے ہاتھا پائی کرنا ہی اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔ایسے طلباء کو سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔قارئین بے شک آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر میرے ناسمجھ ذہن کے مطابق طلباء کو مختلف جرائم سے دور رکھنے کے لیے یہ تین اقدام ضروری ہیں۔تاکہ کسی قسم کے تصادم سے بچا جاسکے۔حال ہی میں ایک سرکاری کالج کے چند طلباء نے اسی کالج کے دوسرے گروہ پر خنجروں کے وار کیے اور طلباء کو زخمی کردیا۔دوسری جانب ملتان کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جہاں ہر طلباء نے ایک پروفیسر کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔اب تو ہم وکلاء گردی پر مذمتیں کر رہے ہیں۔لیکن اگر طلباء گردی پر قابو نہ پایا گیا تو شاید کہ وقت دور نہیں جب ہمیں ان پر بھی نوحہ کناں ہونا پڑے گا۔یہ تو تھے وہ مقاصد کہ جو ہم سمجھتے ہیں اب آپ سے بیان کرتا ہوں طکباء تنظیموں کے اصل مقاصد تو قارئین کرام طلباء تنظیموں کا مقصد طلباء کے حقوق کی پاسداری کرنا اور ان کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنا حق مانگ سکیں۔کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ ذاتی عناد کے باعث کوئی پروفیسر کسی طالب علم سے نا انصافی کرنے لگ جاتا ہے۔تو ان طلباء تنظیموں کا مقصد اس کا ساتھ دینا ہے۔مگر افسوس کہ آج جہاں ایک طرف ہمارے طلباء ان تنظیموں کے مقصد سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب کالج انتظامیہ بھی ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے گریزاں ہو جاتی ہے۔بے شک پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بھی چند طلباء تنظیمیں متحرک ہیں مگر ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کردیتی ہے ٹھیک اسی طرح چند شرہسند طلباء اپنے گروہوں کو تنظیم کا نام دے کر طلباء یونینز کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔طلباء تنظیموں کی بحالی سے یہ بے مقصد گروہ خود بخود ختم ہوسکتے ہیں اور طلباء بھی ان تنظیموں کا دستور و منشور آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔آخر میں دوبارہ عرض کرتا چلوں کہ طلباء تنظیموں اور پھنے خان گروپوں میں زمین و آسمان جتنا فرق ہے۔جو کہ میں نے وضاحت سے بیان کیا۔قارئین کرام اپنی رائے کا اظہار کرنا مت بھولیے گا واٹس ایپ کیجیے
00923062389813