سینئر صحافی سلیم صافی اپنے کالم میں عمران خان کے اس بیان کو درست قرار دے رہے ہیں کہ مافیاز ان کو کام نہیں کرنے دے رہے وہ لکھتے ہیں کہ پہلے میڈیا مافیا کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میڈیا کے اندر تین قسم کے مافیاز ہیں۔ ایک قسم مالکان میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی دھندہ کرکے پیسے کما چکا تھا اور اسے محفوظ بنانا مقصود تھا جبکہ کوئی کالے دھن کو سفید کرنا چاہ رہا تھا چنانچہ ٹی وی چینلز یا اخبار میں سرمایہ کاری کرلی جس کے ذریعے نہ صرف وہ اپنا کالا دھن یا سفید دھن بچا رہے ہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان کا ایک مقصد قیامِ پاکستان کے وقت سے چلنے والے جینوئن صحافتی اداروں کو بےوقعت کرنا اور ان کی جگہ لینا تھا۔ اب کون نہیں جانتا کہ اس مافیا کے چینلز اور اخبارات نے عمران خان کو لیڈر اور پھر وزیراعظم بنانے پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی، وہی مالکان ان کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور انہی کے دھندے کو چمکانے کی خاطر خان صاحب کی حکومت جینوئن میڈیا گروپس کی دھلائی بھی کر رہی ہے۔ میڈیا کے اندر دوسرا مافیا نام نہاد میڈیا منیجرز کی شکل میں موجود ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میڈیا کے اندر کمیشن اور رشوت کے کلچر کو فروغ دیا، پی ٹی وی جیسے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کیا اور ہر حکمران کے آگے پیچھے رہ کر ان کو ڈبونے میں کردار ادا کیا۔ ان میں سے کئی براہِ راست عمران خان کی حکومت میں وزیر اور مشیر بنے اور باقی آگے پیچھے رہ کر عمران خان کے ساتھ قربت کو بیچ رہے ہیں اور دیگر مافیا کے لیے سودے طے کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک معاونِ خصوصی اپنے دائرے سے نکل کر دیگر وزارتوں کے بھی سودے طے کر رہے تھے اور خفیہ ایجنسیوں کی بےتحاشا رپورٹوں کے بعد ان کو خاموشی کے ساتھ فارغ کر دیا گیا لیکن ان سے کوئی حساب نہیں لیا گیا۔ میڈیا کے اندر ایک تیسرا مافیا ان لوگوں کا سامنے آگیا ہے جن کا کوئی آگے پیچھے معلوم نہیں۔ بس وہ اسلام آباد آکر چند میڈیا اینکرز کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں۔ اپنی چرب زبانی اور بےشرمی کی وجہ سے میڈیا کے ذریعے اپنی پہچان بنا لیتے ہیں اور پھر اس راستے سے مختلف سیاسی جماعتوں میں گھس جاتے یا پھر حکومتی مناصب حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کلاس یا مافیا کے نوے فیصد لوگ بھی خان صاحب کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح میڈیا کے اندر چھتری سے اترنے والے یا پھر خفیہ ایجنسیوں کے سہارے نمودار ہونے والے اینکرز اور تجزیہ کاروں کی ایک تعداد ہے اور وہ تو پاکستان کے ہر شہری کو معلوم ہیں کہ کس طرح خان صاحب کے دست و بازو تھے اور آج ان کی قربت میں آگے پیچھے ہو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے یا پھر خود خان صاحب سے بھی لڑ رہے ہیں۔پاکستان میں ایک اور معروف مافیا روایتی سیاسی خاندانوں کا ہے۔ یہ لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور ہر آنے والی حکومت کا حصہ بن کر لیڈر کو کوزے میں بند کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض جاگیردار ہیں، بعض صنعت کار ہیں اور بعض نے تقسیم کر رکھی ہے کہ ایک بھائی ایک شعبے میں، دوسرا دوسرے میں اور تیسرا تیسرے شعبے میں قابض رہتا ہے۔ ان سب کے نام لکھنا ممکن نہیں لیکن پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اس سیاسی مافیا کا تقریباً اسی فیصد حصہ عمران خان کے ساتھ ہے۔معاشی میدان کے قابلِ ذکر مافیاز میں کارپوریٹ سیکٹر کا مافیا، شوگر مافیا، سیگرٹ مافیا، رئیل اسٹیٹ مافیا اور کئی دیگر مافیاز شامل ہیں۔ جہاں تک کارپوریٹ سیکٹر کے مافیاز کا تعلق ہے تو ان کی واضح اکثریت نہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ہے بلکہ اس کی حکومت بھی اس مافیا کے نرغے میں ہے۔ اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک خاندان کے تین بندے اس وقت پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں جبکہ کئی دیگر حوالوں سے وزیراعظم کے آگے پیچھے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک شوگر مافیا کا تعلق ہے تو اس کے نمایاں ناموں میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، ذوالفقار مرزا، زرداری اور شریف فیملی کے لوگ شامل ہیں۔ زیرِ عتاب ہونے کی وجہ سے زرداری اور شریف خاندان کی ملیں بند ہیں اور یوں شوگر مافیا اس وقت تقریباً نوے فیصد ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی مٹھی میں خان صاحب کی حکومت بند ہے۔ جہاں تک سگریٹ مافیا کا تعلق ہے تو اس وقت اس کے اسی فیصد لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور ان کے نصف درجن بندے پی ٹی آئی کی برکت سے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ جہاں تک رئیل اسٹیٹ مافیا کا تعلق ہے تو وہ ہر بندے کو علم ہے کہ اس کے سرکردہ افراد کی اکثریت پی ٹی آئی اور حکومت کا حصہ ہے۔
پاکستان کا ایک اور قابلِ ذکر مافیا بلکہ شاید سب سے زیادہ مضبوط مافیا سول بیورو کریسی اور بالخصوص ڈی ایم جی گروپ ہے اور الحمدللہ پی ٹی آئی کے دور حکومت کو ڈی ایم جی گروپ کی مطلق العنان بادشاہت کا دور سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری جو ڈی ایم جی گروپ سے ہیں، اس وقت زلفی بخاری کے علاوہ باقی پوری کابینہ سے زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے تمام اہم مناصب پر ڈی ایم جی گروپ کے اپنے بندوں کو بٹھا دیا ہے جبکہ بیورو کریسی کے باقی اختیارات بھی ڈی ایم جی گروپ کے ایک ریٹائرڈ افسر کو دیے گئے ہیں۔ پاکستان پر ان دنوں ایک اور مافیا نے یلغار کر رکھی ہے جسے غیر ملکی لابیوں کا مافیا کہا جاتا ہے۔ ان میں قابلِ ذکر امریکی، برطانوی اور ایرانی لابی کے مافیاز ہیں۔ بدقسمتی سے اس مافیا کے بیشتر لوگوں نے خان صاحب پر بڑی سرمایہ کاری بھی کی ہے اور اب ان کے آگے پیچھے بھی یہی لوگ نظر آتے ہیں۔ ملکی مفاد ان کو چین کی طرف کھینچتا ہے لیکن یہ لابی ان کو امریکہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی طرح ایک لابی ان کو سعودی عرب کی طرف تو دوسری لابی ان کو ایران کی طرف کھینچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ عمران خان درست کہتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ مافیاز ان کو کام کرنے نہیں دے رہے ہیں۔ پارٹی میں مافیاز، حکومت میں مافیاز اور خود ان کی ذات کے اردگرد مافیاز۔ ان حالات میں وہ کام کریں تو کیسے کریں