لاہور (ویب ڈیسک) ہم سب غصے میں ہیں کہ مولویوں نے ہمارے راستے بند کر دئیے تھے اور ایسے بند کئے تھے کہ تحریک انصاف والے دیکھتے ہی رہ گئے کہ وہ پوری کوشش کے باوجود اس کا دسواں حصہ بھی فساد برپا نہیں کر پائے تھے ، کہاں صرف ڈی چوک پر
نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہنگامہ اور کہاں ہر شہر کا ہر بڑاراستہ بند، صرف لاہور عمومی طور پر بیس مقامات اور جمعے کے روز سو سے زائد مقامات پر مکمل بند رہا، سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ویڈیوزنے بھی ردعمل پیدا کرنے میں اپنا کردارادا کیا جن میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے جا رہے تھے، انہیں جلایا جا رہا تھا، بات تو سچ ہے کہ کسی بھیعام پاکستانی نے دو چار سے بیس، تیس لاکھ کی گاڑی زندگی بھر کی محنت کے بعد ہی خریدی ہو گی، کسی دوسرے کو کیا حق ہے کہ اس پر ڈنڈے مارے، اسے آگ لگائے۔ حکومت نے درست فیصلہ کیا ہے کہ راستے بند کرنے، جلاو¿ گھیرا و¿ اور توڑپھوڑ پر قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اگرچہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کہی جا سکتی ہے جو جمعے کی رات کو کیا گیا مگر بہرحال یہ فیصلہ اصولی اور جرا¿ت مندانہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سڑکیں اور بازار بند ہونے، کاروبار زندگی معطل ہونے سے ایک کھرب روپے کا نقصان ہوا، میں اپنے ہی شہر کی بات کروں تو سکول بند کر دئیے گئے، منڈیوں میں پہنچنے والے ہزاروں ٹرکوں کار استہ روک دیا گیا ، تین روز تک کھڑے ٹرکوں میں پھل اور سبزیاں گلنے سڑنے لگیں، مارکیٹیں بند ہونے سے جہاں تاجر کا ہی نقصان نہیں ہوا
بلکہ حکومتی خزانے میں آنے والے کروڑوں، اربوں روپوں کاراستہ بھی رکا ، مزدور کی جیب میں وہ پانچ، سات سو بھی نہیں گئے جو وہ دیہاڑی لگا کے کماتا تھا۔لاہور میں روزانہ تیس لاکھ لیٹر تیل استعمال ہوتا ہے اس میں ستر فیصد پٹرول اور تیس فیصد ڈیزل شامل ہے مگر بدھ کی دوپہر سے پٹرول ٹینکروں کی آمد کا سلسلہ رک گیا اور جمعہ کی شام تک لاہور کے آدھے کے قریب پٹرول پمپ خشک ہو گئے اور کہا گیا کہ اگر ہفتے کا روز بھی اسی طرح گزرا تو لاہور میں پٹرول ختم ہوجائے گا۔ اسی شہر میں روزانہ چھ سے ساڑھے چھ ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا جاتا ہے مگر سڑکیں بند ہونے اور بعض مقاما ت پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ والوں کی گاڑیوں پر پتھراو¿ کی وجہ سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کام بند کر دیا گیا اور جب میں اتوار کے روز اس تحریر کو رقم کر رہا ہوں میرے گھر کے پاس تین مقامات پر کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر موجود ہیں، پورے شہر میں بیس ہزار ٹن سے زائد کوڑا اکٹھا ہو چکا ہے جسے اٹھانا ایک مشکل کام ہے۔رہ گئی سکولوں کی بندش تو مت پوچھیے کہ ہم لوگوں نے کبھی اس نقصان کو نقصان ہی نہیں سمجھا بلکہ بچے اسے تفریح کے طور پر لیتے ہیں۔
جو کچھ میں نے بیان کیا وہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ ہر عمل دراصل کسی دوسرے عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ایک عدالتی فیصلے کا ردعمل تھا جو پاکستان کی اکثریت کے لئے ناقابل قبول ہے۔ مجھے ایک پاکستانی کے طور پر افسوس ہے کہ بہت سارے فیصلے آئین اور قانون نہیں بلکہ ایک ایجنڈے اور ٹارگٹ کے طور پر لئے جا رہے ہیں جو کسی بھی ملک میں قانون اور انصاف کے نظام کے لئے اچھا شگون نہیں۔ تصویر کا دوسرارخ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی عام اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں کچھ مخصوص طبقات کی وجہ سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین شدید ترین خطرات کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ کوئی بھی ہو، چاہے وہ سیاستدان ہوں یا غیر سیاستدان، عدم اعتماد کی فضا ہر کسی کے لئے یکساں ہے جو اقتدار کی کرسی پر موجود ہے۔ آسیہ ( یا عاصیہ) بی بی کا فیصلہ بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھا گیا اورمیں خود حیران ہوں کہ آسیہ بی بی کو بری کرنے کا فیصلہ سنانے کے لئے ا س تاریخ ( یعنی 31اکتوبر2018) کا چناو¿ کرنے کی کیا ضرورت تھی جس تاریخ ( یعنی 31اکتوبر 1929 ) کو غازی علم الدین شہید کو پھانسی دی گئی تھی۔
اس روز تقریبا تمام اخبارات نے غازی علم الدین شہید پر ایڈیشن شائع کئے تھے، سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے اس عاشق رسول سے تعلق اور واسطہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے نبی کی غلامی اور عشق پر فخر کا اظہار کیا جا رہا تھا اور اسی روز برس ہا برس سے چلنے والے مقدمے کا فیصلہ ایک ایسی عورت کو بری کرتے ہوئے سنایا جا رہا تھا جو اپنے جرم کا اعتراف کر چکی تھی،ماتحت عدالتیں اسے سزا سنا چکیں اور اپیل میں اسے برقرا ررکھ چکی تھیں۔ ہو سکتاہے کہ کسی کی نظر میں آپکا فیصلہ ہر نقص سے پاک ہو مگرعوامی سطح پر اس پوسٹ مارٹم ہوچکا۔ ختم نبوت اور توہین رسالت کے قوانین کو لاحق خطرات غلط ، بے بنیاد او رمحض پروپیگنڈہ نہیں ہیں، اس بارے ہمیں مغرب زدہ اور غیر مسلم طاقتوں کی طرف سے واضح پیغامات ملتے ہیں، وہ کبھی معاشی تعلقات کو آسیہ ( یاعاصیہ ) بی بی سے مشروط کرتے ہیں اور کبھی ان قوانین کے خلاف سماجی سطح پر رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔پہلی با ت ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے ہے کہ مسلمانوں کو ہر دوسرے مذہب والوں کی طرح اپنے عقیدے کی تشریح کا حق ہے اور اس تشریح پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں کہ
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ سمجھنے والا مسلمان نہیںکہلا سکتا۔ اس سے کسی دوسرے کو کیا مسئلہ اور کیا تکلیف ہے۔ کیا مسلمان اس امر پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہندو، عیسائی اور یہودی اپنی مجموعی حیثیت میں اپنے اپنے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے کیا شرائط عائد کرتے ہیں ۔ توہین رسالت کا معاملہ اس سے بھی آسان اور واضح ہے، پروپیگنڈے سے باہر نکلئے اور اعداد وشمار دیکھئے ، اس جرم میں آج تک کسی ایک کو بھی انتہائی سزا نہیں دی جا سکی اور جہاں اس قانون کے نفاذ میں کمی اور کوتاہی دکھائی گئی وہاں مشعال سمیت ہر وہ شخص عوامی عدالت کے ہاتھوں قتل ہو گیا جس پر الزام لگا یعنی میری تشریح یہ ہے کہ توہین رسالت ( یا مذہب) کا قانون بنیاد ی طور پر ملزم کی زندگی کو تحفظ دیتا ہے، یہ بھی ثابت ہے کہ پروپیگنڈہ دوسرے ممالک کی شہریت کے حصول سمیت مخصوص مفادات کے لئے ہے۔ اس قانون نے عملی طور پر الزامات کا شکار غیر مسلموں کو جان اور مال کے حوالے سے فائدے پہنچائے ہیں۔ حیرت ہے کہ جو لوگ یہودیوں کے ہالوکاسٹ پر بات نہ کرنے کے قانون میںدفاع کے وکیل بنتے ہیں وہی ہمارے ملک میں نبی کریم اور مذہب کی توہین روکنے کے قانون میں استغاثے کے وکیل ( بلکہ جج) بن جاتے ہیں۔
نماز روزے کو مصیبت ، حج کومحض سعودیوں کی خدمت اورقربانی کو ظالمانہ فعل قرار دینے والا مغرب زدہ طبقہ اپنے چہرے پر نقاب چڑھا کے ایک ایسا اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے جیسا مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو رد کرتے ہوئے انگریز کے دورمیں کیا، جیسا مغلیہ سلطنت کے تیسرے فرماں روا جلال الدین اکبر نے دین الٰہی کو ایجاد کر کے کیا۔ اس حوالے سے اجتہاد کی بات کرنے والے تقلید کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور اگر ان کے فارمولے کو جدید دور کے تقاضوں کی دلیل مانتے ہوئے تسلیم کر لیا جائے تو اسلام اپنی ہئیت، عقائد اور تشریحات میں مکمل طور پر بدل کے رہ جائے۔ جب نئے دور کے تقاضوں کے لئے اجتہاد کی نفی نہیں کی جا سکتی تو پھر دین کو اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لئے تقلیدکا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر یہ ہٹ دھرم مولوی نہ ہوں ،جو خود کو عاشق رسول کہتے ہیں بجا طور پر داڑھیاں اور بے جا طور پر ڈنڈے لہراتے پھرتے ہیں تو نماز ، روزے اورحج جیسی عبادات پر ہی موقوف نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے اس تصور تک کی چھٹی کروا چکے ہوں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، ان کے مقابلے میں توہین رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کی کیا حیثیت ہے جو اسلامیان پاکستان نے اتفاق رائے کے ساتھ تمام تر جمہوری اور سیاسی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تشکیل دئیے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ سب عقائد آوٹ ڈیٹڈ اور ڈینٹنگ پینٹنگ کے قابل لگتے ہوں مگر مان لیجئے کہ پاکستان کے ننانوے فیصد مسلمان اس فتنے کے قائل نہیں ہیں۔ جمہوریت کے بہت سارے دشمن سیاستدان کے کمزور کردار کو جمہوریت کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسلام کے مخالف مولوی کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، میں مانتا ہوں کہ سیاستدانوں اور مولویوں کے کردار مثالی نہیں ہیں مگرآپ بھی مان لیجئے کہ سیاستدانوں کے بغیر جمہوریت اور مولویوں کے بغیر اسلام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔