کراچی (یس ڈیسک) جسٹس فیصل عرب کا کہنا ہے کہ وکلا کی ہڑتالوں کی تائید نہیں کرتا، ہڑتالوں سے سائلین براہ راست متاثر ہوتے ہیں حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ امن قائم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، جج سڑکوں پر جا کر دہشت گردوں کو نہیں پکڑ سکتے۔
ادارے تفتیش کر کے رپورٹ پیش کرتے ہیں اور ججز مقدمہ سن کر فیصلہ سناتے ہیں، تحقیقاتی رپورٹ جیسی آئیں گی فیصلے ویسے ہی ہونگے، درست تفتیش کی جائے تو مجرم کوانجام تک پہنچایا جا سکتا ہے، سزاؤں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، کرپٹ ججوں کی ترقی روکنا اور تبادلے کرنا کافی نہیں اب ان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی، ایکشن نہ لینے سے برائی میں اضافہ ہوتا ہے، ماتحت عدالتوں کی سخت نگرانی کی جائے گی، امن قائم کرنا قانون نافذ کرنے والوں کی ذمے داری ہے ججوں کی نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنی ذمے داری ادا کرنا ہو گی۔
انھوں نے عدالتی نطام میں کرپشن کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی جج کرپشن میں ملوث پایا گیا تو صرف تبادلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ کرپٹ ججوں کیخلاف سخت کارروائی ہو گی، اگر سخت کارروائی اور نگرانی کی جائے تو کرپشن کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے، ماتحت عدلیہ میں اکثریت اہل، قابل اور محنت کرنے والے ججوں کی ہے مگر چند افراد کی وجہ سے پوری عدلیہ بدنام ہوتی ہے۔
ماتحت عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک جج کا نام لیے بغیر انھوں نے کہا کہ ایک باثر شخصیت کے خلاف درست تفتیش ہوئی اور وہ شخصیت سپریم کورٹ سے بھی ضمانت حاصل نہیں کر سکی، مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور عوام کو جلد سستا انصاف فراہم کرنے کیلیے مربوط نظام بنانا ہو گا، وکلا کی ہڑتالوں کی تائید نہیں کرتا، ہڑتالوں سے سائلین براہ راست متاثر ہوتے ہیں، کسی جج یا وکیل کا فوت ہو جانا عدلیہ کیلیے خوشی کا مقام نہیں ہوتا کہ کام بند کیا جائے، ہڑتالوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی، چند روز قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے انتقال پر عدالت عظمیٰ میں معمول کے مطابق کام ہوتا رہا مگر سندھ ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں کارروائی معطل کرا دی گئی، برسوں سے زیر التوا مقدمات نمٹانے کیلیے وکلا کو تعاون کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ جسٹس فیصل عرب سندھ ہائی کورٹ کے 23ویں چیف جسٹس ہیں، وہ 5نومبر 1955 کو پیدا ہوئے، گورنمنٹ کامرس کالج کراچی سے 1978 میں گریجویشن کیا جبکہ 1989 میں سندھ مسلم لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، 1990 میں باقاعدہ وکالت کاآغاز کیا، وفاق کے وکیل (اسٹینڈنگ کونسل) کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے جبکہ 25اکتوبر 2005کو سندھ ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے، پرویز مشرف نے 9مارچ2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو جسٹس فیصل عرب بھی پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے ججوں میں شامل تھے جس پر انھیں معذول کر دیا گیا تھا۔