سندھ کی حکومتی جماعت پیپلز پارٹی نے چوالیس برس بعد لیاقت آباد میں کمانڈر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں انٹری دی۔
اس تمام تر انٹری کا سہرا پی پی بریگیڈ کے میجر جنرل سعید غنی تھے جو کراچی میں ہی پلے بڑھے لہذا یہاں کی جغرافیائی صورتحال سے واقف بھی ہیں۔ علاوہ ازیں میرا نہیں خیال کہ پی پی قائدین میں سے کسی کو ایف سی ایریا کے ٹنکی گراونڈ کا علم ہو۔
جلسہ ہونا تو جناح گرائونڈ میں تھا مگر پی پی قیادت نے عزیزآباد کے مقام پر ہونے والے جلسے کو اچانک ملتوی کر کے اسی ہفتے مقام تبدیل کر کے جلسے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ سعید غنی نے سینیٹر شپ چھوڑنے کے بعد محمود آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل حلقے سے انتخاب لڑ کر متحدہ امیدوار (ایم کیو ایم تقدیم کا باعث بننے والے) کامران ٹیسوری کو لگ بھگ دس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی جسے متحدہ نے تسلیم بھی کیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ 22 اگست سے قبل جب متحدہ کے رہنما اور منزل ایک تھے، نے کراچی کے مختلف حلقوں میں ہونے والے انتخابات میں برتری ہی حاصل کی تھی۔
گذشتہ روز یعنی 29 اپریل کو بلاول دوسری بار لیاقت آباد کی حدود میں داخل ہوئے، پہلی بار وہ امجد صابری کی شہادت کے بعد ان کی رہائش گاہ آئے تھے۔
بلاول جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا، اس کی آمد لوگوں کے لیے باعث تکلیف بنتی ہے کیونکہ شاہی خاندان کے فرد کی آمد پر سیکیورٹی اقدامات اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
پہلی بار آمد پر بھی ایسی کچھ ہوا۔ تعزیت کرنے جس گھر پر بلاول تشریف لائے، انہیں بھی علی الصبح سے گھر میں محصور کرنے کی ہدایت کردی گئی تھی اور کل بھی ایسی ہوا۔ بدقسمتی سے ایسی باتوں کو دہشت گردی یا غنڈہ گردی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ صوبے کا سربراہ خود ساتھ ہوتا ہے اور یہ کام اہلکار و قانون نافذ کرنے والے ادارے کرواتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی غریب دکان کھولنا چاہے یا مجبوری کے تحت بند راستے سے گزر رہا ہو، پہلے تو وہ لاپتہ ہوگا، پھر اگر قسمت اچھی رہی تو کسی عدالتوں میں سیون اے ٹی اے کی جیسی دفعات والا مقدمہ بھگتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی نے ایک جلسے کے لیے پورے ایف سی ایریا کا نقشہ تبدیل کردیا۔ صفائی ستھرائی، چونا، بجلی کے تاروں کی باقاعدہ وائرنگ بلکہ کل اہلِ ایف سی ایریا پی پی کو دعائیں دے رہے تھے کہ جلسے کی وجہ سے سارا دن لائٹ نہیں گئی۔
جلسے سے تین روز قبل سندھ حکومت سے سرکاری مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ پولیس نے سیکیورٹی کے نام پر لیاقت آباد، شریف آباد اور خصوصاً ایف سی ایریا کی تمام دکانیں ایک روز قبل بند کرنے کی تحریری ہدایت جاری کی تھی جو پیر کے روز کھل سکیں۔
پی پی کے تقریر کرنے والے قائدین نے ماسوائے رضا ربانی سب نے ٹرک کی لال بتی پکڑی اور ایم کیو ایم کی برائیاں، غفلتیں، کوتاہیاں وہی پرانے دہشت گردی کے الزامات دہرائے۔ سب نے ہی دعویٰ کیا کہ پنڈال میں موجود شرکاء کی بڑی تعداد ضلع وسطیٰ سے ہے (مگر حقیقت اس کے برعکس تھی).
بلاول نے بھی اردو میں تقریر کی جو شاید ان کو اور سامعین کو سمجھ نہیں آئی ہوگی کیونکہ محترم چیئرمین ابھی اردو بولنے کی کلاسز لے رہے ہیں۔
ٹوٹی پھوٹی جیسی تیسی اردو میں بلاول نے حریفوں کو خوب لتاڑا اور یہ بھی کہہ گئے کہ کراچی کو لندن سے آزاد کرایا۔
پی پی نے جلسے کے اختتام سے قبل ہی کامیابی کے شادیانے بجائے کہ بڑا جم غفیر اکٹھا کیا، ایم کیو ایم کے تابوت میں کیل ٹھونک دی (ویسے یہ کام پی پی کے کرنے کا نہیں کیونکہ سربراہی کے شوق نے یہ کام کراچی کے نمائندوں سے خود ہی کروالیا).
اگر مشرف، ایم کیو ایم کے دو یوم تاسیس اور پی ایس پی جلسوں کو دیکھا جائے تو پی پی کا جلسہ شاندار تھا، عوام تھے کراچی کے مختلف علاقوں خصوصاً اندرون سندھ سے لائے گئے، سائونڈ سسٹم، لائٹیں، میوزک، سرکاری وسائل ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے پی پی کے جلسے کو شاندار تو کہا جاسکتا ہے، کامیاب نہیں۔ بلکہ یوں بھی نہیں کہا جاسکتا کہ عوام پی پی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پی پی کا جلسہ کامیاب اس وقت ہوتا جب بلاول بھٹو اپنے نانا کا مسلط کردہ کوٹا سسٹم فوری ختم کرنے کا اعلان کرتے، لیاری گینگ وار کے ہاتھوں شہید ہونے والے مہاجروں کی شہادتوں پر معافی مانگتے کیونکہ پی پی کے عزیر یا گینگ وار سے تعلقات پوشیدہ نہیں۔ جلسہ کامیاب تب ہوتا جب بلاول بھٹو رائو انوار کے ہاتھوں مارے جانے یا گرفتار ہوکر رہائی پانے والے بے گناہ بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کا یقین کرواتے۔ کاش بلاول ایف سی ایریا کے رہائشی ہاشم کی شادی کے بعد گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل یا آفتاب احمد کی والدہ کو یقین دلاتے کہ آپ کے بچوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ تب پی پی کا جلسہ کامیاب ہوتا وگرنہ ایک وقت میں اس سے دوگنے جلسے ریاستی حمایت کے ساتھ بانوے میں بننے والا آفاق احمد کا دھڑا بھی کرچکا ہے مگر آج تک وہ کراچی کی کسی نشست سے کامیاب نہیں ہوا۔