الیکشن قریب آتے ہی ساری سیاسی جماعتوں کے پیٹ میں کراچی کا درد اٹھنے لگتا ہے۔ اچانک ہر کسی کو یہاں کے لوگوں کی تکالیف اور مسائل کا احساس شروع ہوجاتا ہے اور وہ بڑی بڑی اور دل لبھانے والی باتیں کرنے لگتا ہے، مقصد ووٹ سمیٹنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے ٹنکی گراؤنڈ میں جلسہ کرتے ہوئے کراچی والوں سے کہا کہ وہ اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ووٹ دیں۔ بدلے میں انہوں نے شہر قائد کی روشنیاں لوٹانے اور کچرا صاف کرنے سے لے کر بجلی پانی سمیت دیگر تمام مسائل کے حل کا وعدہ کیا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی! پچھلے دس سال سے سندھ پر آپ کی حکومت ہے، آپ صوبے کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں، کس نے روکا تھا آپ کو کراچی کی روشنیاں بحال کرنے سے؟ کس نے منع کیا تھا کچرا صاف کرنے سے؟ کس نے آپ سے کہا تھا کہ شہر کے مسائل حل نہ کریں؟ ایم کیو ایم نے؟
تو بلاول صاحب! یہ وہی ایم کیو ایم ہے جو آپ کے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں آپ کے پلو سے بندھی ہوئی تھی، اور آپ اس کے خوب ناز نخرے اٹھارہے تھے۔ وہ جیسے ہی روٹھتی تھی، آپ کے رحمان ملک منانے کےلیے فوراً نائن زیرو کی یاترا کرتے تھے۔ سچ سچ کیوں نہیں کہتے کہ یہ سب الیکشن کمپین ہے، انتخابی وعدے ہیں اور کچھ نہیں۔
آپ نے ایم کیو ایم کو مستقل قومی مصیبت قرار دیا، یہ آپ کو اب کیوں خیال آرہا ہے؟ اگر یہ واقعی قومی مصیبت تھی تو آپ نے اسے گلے سے کیوں لگا رکھا تھا۔
خورشید شاہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم 33 برس تک ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث رہی۔ تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ پیپلز پارٹی نے جانتے بوجھتے ہوئے پچھلے دور حکومت میں ایک ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور جماعت کو اپنی صوبائی حکومت کا حصہ بنایا۔ کیا یہ جرم نہیں؟
ادھر ایم کیو ایم بہادر آباد والوں کی بھی سنیے: خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کے بجائے گولی، کفن اور قبرستان دیا۔ گولی، کفن اور قبرستان کا الزام کم از کم پیپلزپارٹی پر تو سوٹ نہیں کرتا۔ کس پر کرتا ہے؟ سب جانتےہیں، منہ نہ کھلوائیے۔
آپ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت سے پہلے کراچی روشنیوں کا شہر تھا۔ چلیے تھوڑی دیر کو مان لیا کہ اس نے اندھیرے کر ڈالے مگر پچھلے 33 سال سے تو کراچی آپ کے پاس تھا۔ آپ نے کون سے چراغ روشن کردیئے؟ آپ تو پانچ سال تک پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ تھے۔ کیا کیا آپ نے اس شہر کےلیے؟ مشرف کے 9 سالہ دور حکومت میں آپ اس شہر کے سیاہ و سفید کےمالک بنے ہوئے تھے۔ کیوں نہیں سدھارا کراچی کو؟ محض سڑکیں، پل اور پارک بنا کر کوئی شہر ترقی نہیں کرتا۔ شہر ترقی کرتا ہے جب وہاں امن ہو، وہاں کے عوام خوشحال ہوں، ان کے پاس روزگار، تعلیم، صحت، بجلی، پانی جیسی بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ کراچی کا 85 فیصد مینڈیٹ رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں نے کیا حال کردیا اس شہر کا، سب جانتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم چکی کے دو پاٹ ہیں اور کراچی ان میں پس کر رہ گیا ہے۔ مگر کراچی میں اب بھی بہت پوٹیشنل ہے۔ اس کا امن و امان برقرار رکھ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیجیے، یہ شہر خود ترقی کرے گا اور آگے بڑھےگا۔ غیرملکی سرمایہ کاری آئے گی، مقامی نجی شعبہ بھی اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا کیونکہ اس کا اپنا مفاد اس شہر سے ہی وابستہ ہے۔ آپ بس اس کے انتظامی معاملا ت دیکھیے۔ یہ شہر پھر سے کماؤ پوت نہ بن جائے تو کہیے گا۔
لیکن سیاسی گدھ ایسا ہونے نہیں دیں گے، انہیں اسے نوچ نوچ کر کھانے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔