تحریر : میر افسر امان
حسب ،اعلان،٨ فروری، عافیہ موومنٹ کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ایک قومی جرگہ کراچی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے باہر روڈ پر منعقد ہوا۔ کمپیرئنگ کے فرائض سیلم مغل صاحب نے ادا کیے۔ اس قومی جرگے میں پاکستان بھر سے سیاسی، دینی، سماجی،ہیومن رائٹ، سول سوسائٹی ، کالم نگار اور میڈیا کے افراد شریک ہوئے۔
جرگے کی صدارت جناب جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمدنے کی۔ اس قومی جرگے میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کے اسداللہ بھٹو صاحب، خواتین ونگ کی نمائندہ محترمہ عائشہ منور صاحبہ، یونس بارائی صاحب ، ہیومن نیٹ ورک کے سُوری، پاسبان کے الطاف شکور، دعوة کے جناب مزمل صاحب،مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، مسلم لیگ(ق)، متحدہ قومی موومنٹ ، خاکسار تحریک، پیپلز پارٹی، عدلیہ کے نمائندے، سول سوسائٹی کے نمائندے، مرد و خواتین ،بچے نوجوان اور کراچی کے عوام جس میں خاص کر لیاری سے آئی ہوئی خواتین اور بچے نمایا تھے شریک ہوئے۔ عین جرگے کی کاروائی کے دوران وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے دفتر سے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کی خیریت معلوم کی گئی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر موثر احتجاج کیا جائے تو حکمران اس سے ضرور باخبر رہتے ہیں۔ تلاوت قرآن شریف کے بعد سلیم مغل صاحب نے ڈاکڑ عافیہ کی گم شدگی، افغانستان کی بکرام جیل میں قید، امریکہ منتقلی اور امریکی متعصب یہودی جج کی طرف سے ٨٦ سال کی قید اور قید کے بارہ سال پورے ہونے کی دکھ بھری روداد بیان کی۔ انہوں نے فرمایاڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہے وہ امریکی شہری نہیں،اس نے بچوں کی تعلیم میں امریکا سے leraning through ammitaton میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ اتنی ذہین ہے کہ اس کے استاد نوم چسکی نے کہا تھا یہ جہاں بھی جائے گئی نظام بدل دے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے امریکا کے خفیہ والوں نے تین بچوں سمیت گرفتار کیا۔ اس کا ذکر مشرف ڈاکٹیٹر نے اپنی کتاب” سب سے پہلے پاکستان” میں کیا ہے۔ مشرف ڈکٹیٹر نے جن چھ سو پاکستانیوں کو ڈالر لے کر امریکہ کے حوالے کیا تھا اس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل تھی۔پانچ سال تک ڈاکٹر عافیہ اور اس کے تین بچوں کا اتا پتہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ایک نو مسلم برطانوی صحافی مریم ریڈلے نے پہلی بار ٧ جولائی ٢٠٠٨ کو قیدی نمبر ٦٥٠ بلگرام جیل افغانستان جو کہ امریکی انتظام میں تھی۔ایوان ریڈلے ایک برطانوی خاتون جو طالبان کی خبریں حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہوئی تھی ۔ جسے غیر قانونی صحافت کرتے ہوئے طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ جو طالبان کی قید میں رہی اور قید کے دوران طالبان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کراسلام قبول کر لیا تھا۔
اب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں کرتی رہتی ہے۔ اس نے بلگرام جیل میں ایک قیدی عورت کی چیخوں کی آوازیں سنی ۔ اس کے بعد اس نے اس کی شناخت کی اور پاکستان میں آکر انکشاف کیا کہ یہ پاکستان کی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ اس طرح ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں کو اس مظلومہ کا پتہ چلا۔ افغانستان میںامریکی فوجیوں نے اس کمزور عورت پر تین فائر کی اور سوچا کہ مر گئی ہے۔ جب دنیا میں اس ظلم کا شور مچا تو ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا۔امریکہ میں اس پر مقدمہ قائم کیا گیا کہ اس نے امریکہ میرین سے رائفل چھین کر ان پر فائر کئے ۔ جب کہ کوئی فوجی زخمی بھی نہیں ہوا۔ بل کہ جب ڈاکٹر عافیہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا وہ خود زخمی تھی اور اس کے زخموں سے خون بھی بہہ رہاتھا۔ڈاکٹر عافیہ کو امریکی فوجی ننگا کرکے اس کے سامنے قرآن شریف رکھتے اور قرآن کی بے حرمتی کرتے تھے۔ مشرف کے دور میں عافیہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ۔پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان کے وکلا نے ڈاکٹرعافیہ کا مقدمہ خراب کیا۔ نواز شریف نے بھی کہا تھا عافیہ میری بیٹی ہے۔ میں حکومت میں آکر اس کو رہائی دلائوں گا۔ مگر جب نواز شریف حکومت میں آئے تو اسے اپنا دعدہ یاد کرایا گیا مگر اس نے آج تک کچھ نہیں کیا۔ نواز شریف کی ٹیبل پر قیدیوں کے تبادلے کے قانون کی سمری پڑی ہے۔ صرف اس پر دستخط ہونے ہیں اور عافیہ پاکستان منتقل ہو سکتی ہے۔سب حکمرانوں نے کہا کہ وہ ڈاکڑ عافیہ کورہائی دلائیں گے مگر آج تک کچھ نہ ہو سکا۔ امریکا کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس جس نے پاکستان کے تین شہریوں کودن دھاڑے شہید کیا اس مجرم کو تو جہازپر بیٹھا کر واپس امریکا بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ جس نے کوئی دہشت گردی نہیں کی۔نہ اس پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہوا۔ اس مجرم کے بدلے ہمارے حکمران بھی رہائی نہ دلا سکے۔
اب ہر طرف سے مایوس ہو کر اس قومی جرگے کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ آپ لوگ اس میں بیٹھ کر اپنی آزاد رائے سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ فیصلہ کر سکیں۔ اور اس فیصلے پر عمل درآمد کر کے ڈاکٹر عافیہ کو واپس پاکستان لیا جا سکے۔ جرگہ ترتیب دینے والی عافیہ موومنٹ کی رو روان اور ڈاکٹر عافیہ کہ بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ، جس نے ایک کمزور عورت ہوتے اور گھر اور ملازمت کو پس پشت ڈالتے ہوئے قریہ قریہ،شہر شہر، ملک ملک دن رات ایک کر دیے ہیں کہ کسی طرح اس کی مظلومہ بہن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی شیطان کبیر امریکہ کی جیل سے رہا ہو کر اپنے پیارے وطن پاکستان اپنے بچوں سے آ ملے۔ جب اس نے اپنی بہن کی رہائی کی کوششوں کو بیا ن کیا تو شرکاء کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔جماعت اسلامی کے رہنما اسد اللہ بھٹو صاحب ڈاکڑ عافیہ کی رہائی کے لیے اپنی جماعت کی کوششوں کاذکر کیا اور ہر موقعے پر تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ شہریوں کا مسئلہ ہے۔ تحریک انصاف سندھ کی صدر نے بھی تعاون کا کہا۔ ڈاکٹر فوزیہ نے ان سے کہا کہ عمران خان صاحب سے کہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ایک عدد دھرنہ دیں۔ جس کا انہوں عمران صاحب سے بات کرنے کا کہا۔ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی کے رکن مزمل قریشی صاحب نے کہاکہ ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے لیے الطاف بھائی کے کہنے پر کراچی میں ریلی نکالی تھی۔اس پر ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے کہا اب ایک ریلہ نکالیں تا کہ ڈاکٹرعافیہ کی رہائی ممکن ہو سکے۔
دعوة کے مزمل صاحب نے بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا۔اس قومی جرگے میں سب شرکا ء نے اپنی اپنی تنظیموں کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے جدو جہد کرنے کا دعدہ کیا۔ جرگہ میںمیں ”میثاق کراچی” منظور کیا گیا جوپڑھ کر شرکاء کو سنایا گیا اور سب نے ہاتھ اُٹھا کر اس میثاق کراچی کی تائید کی۔ سفارشات کو حکومت کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ ہوا۔عدالت سے از خود نوٹس لینے کا کہا گیا۔عافیہ کی سزا امریکی نظام انصاف کی شکست ہے۔معاملہ قومی غیرت کا تھرما میٹر بن چکا ہے۔حکومت اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے میثاق کراچی منظور ہونے پر شرکاء جرگہ کا شکریہ ادا کیا۔ صدارتی خطاب کرتے ہوئے جناب ریٹائرڈ جسٹس وجہیہ الدین احمد صاحب نے ڈاکڑ عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی نقطے بیا ن کئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جیسے ایک قانون دان نے بیان کیا ہے کہ ایک مقدمہ میں جج صاحب نے حکم جاری کیا ہے کہ ڈاکڑعافیہ کابیان ریکارڈ کیا جائے تو اگر اس مقدمے کا فالو اپ کیا جائے تو اس میں ڈاکٹر عافیہ کی وطن بھی واپسی ممکن ہو سکتی ہے صدارتی خطاب کے بعد پاکستان کا قو می ترانہ بجایا گیا۔ جرگے کے سب شرکاء نے پاکستان کا ترانہ کھڑے ہو کر احترام سے سنا اور جرگے کا پروگرام اہتمام پذیر ہوا۔ہماری دعا ہے کہ اللہ قوم کی بیٹی کو امریکا کی جیل سے رہائی دلائے۔ نہیں تو کم از کم یہ سبیل نکل آئے کہ وہ بقایا سزا پاکستان کی کسی جیل میں گزارے تاکہ اس کے بچے اور خاندان اس کو دیکھ سکیں اوراس سے مل سکیں۔
تحریر : میرافسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)