پاکستانی قوم کو ہر نیا آنے والا شخص پسند آجاتا ہے۔ نواز شریف کو جنرل مشرف نے اقتدار سے ہٹایا تو ملک بھر میں مٹھائی تقسیم ہوئی۔ لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کا والہانہ استقبال کیا لیکن بعد میں ان کی پالیساں بھی پاکستانی عوام کو پسند نہ آئیں۔ جنرل صاحب سے اپنے دور اقتدار میں کچھ سیاسی غلطیاں ہوئیں جن میں سے ایک بڑی غلطی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی تھی۔ مارچ 2007ء کو جنرل پرویزمشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو برطرف کیا تو پوری پاکستانی قوم نے وکلاء کی تحریک کا ساتھ دیا اور چیف جسٹس کی پشت پر آکھڑی ہوئی۔ لوگ یہ بھول گئے کہ جسٹس صاحب نے این آر او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ جو اس وقت اقتدار میں تھے، ان کے سوا ساری سیاسی جماعتیں اس تحریک کا حصہ بن گئیں اور ہر طرف “چیف تیرے جانثار” کے نعرے گونجنے لگے۔
وکلاء تحریک نے پنجاب میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں بڑے مارچ نکالے گئے۔ 12 مئی 2007ء کے دن وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کو کراچی کے دورہ کی دعوت دی گئی اور انہیں سندھ ہائی کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کے لیے بلایا گیا۔ چیف جسٹس کو ایک بڑے جلوس کی شکل میں کراچی ائیرپورٹ سے سندھ بار کی تقریب میں شرکت کے لیے لانے کا اعلان کیا گیا۔ تمام ہی جماعتوں نے اس استقبالیہ جلوس میں شرکت کی تیاریاں شروع کردیں۔ دوسری طرف اس وقت کی ایم کیو ایم نے مشرف حکومت سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسی دن جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔
خدا جانے اس دن کہاں سے دہشت گرد شہر کی گلیوں میں آگئے۔ چیف جسٹس کے قافلے پر گولیاں برسائی گئیں، سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر حملے ہوئے۔ ہر طرف جنگ کا سماں نظر آنے لگا۔ جو جہاں تھا وہیں محسور ہوگیا۔ پورا شہر سارا دن جلتا رہا، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے فضا گونجتی رہی اور لوگ مرتے رہے۔ چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کراچی ائیر پورٹ سے قدم باہر رکھے بغیر ہی واپس چلے گئے۔
اس دن چونکہ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی لہٰذا سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 12 مئی کی یاد میں شہرِ قائد میں جلسے کا اعلان کیا۔ دونوں جماعتوں نے جلسے کیلئے ایک ہی جگہ کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی نے جلسے کا قانونی اجازت نامہ بھی حاصل کرلیا جبکہ تحریک انصاف اجازت نامہ حاصل نہ کرسکی۔ اس صورت حال میں دونوں جماعتوں نے جلسہ گاہ کے قریب کیمپ لگا دیے۔
اجازت نامہ جاری ہونے کے بعد گلشن اقبال کے حکیم سعید گرائونڈ میں دونوں جماعتوں کے کارکنان آمنے سامنے آگئے۔ وفقے وفقے سے تصادم ہوتا رہا جس کو رینجرز اور پولیس اہلکاروں نے کنٹرول میں رکھا۔ بعد ازاں یہ معاملہ مزید بڑھ گیا۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان نے 12 مئی کی یاد میں ایک دوسرے پر دھاوا بول دیا۔ گولیاں چلیں، ڈنڈے لہرائے گئے، کارکنان نے کیمپوں میں آگ لگا دی، آپس میں گتھم گتھا ہوئے اور ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا۔ دونوں جماعتوں نے ابتداء میں تو ایک دوسرے پر الزام عائد کئے لیکن بعد میں تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم اس مقام پر جلسہ نہیں کریں گے، پیپلز پارٹی بھی کسی اور مقام کا انتخاب کرے۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک مثبت ردِعمل سامنے آیا۔ انہوں نے بیان جاری کیا کہ اگر تحریک انصاف چاہے تو یہیں جلسہ کرلے، پورا کراچی ہمارا ہے۔ ہم کہیں اور جلسہ کرلیں گے۔
دونوں جماعتوں کی قیادت نے تو معاملے کو دانش مندی سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن کھلاڑیوں اور جیالوں میں سوشل میڈیا پر تصادم ہوگیا۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے ایک دوسرے پر تاک تاک کر لفظی نشتر داغے۔ ایک دوسرے کو دہشت گردی کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے۔ جب اس سے بھی بدلے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو اخلاقیات کا جنازہ بھی اٹھایا گیا۔ “کراچی کس کا؟” کی صدائیں بلند ہوئیں۔ کسی نے خود کو کراچی کا وارث کہا تو کسی نے کہا کہ کراچی ان کی خریدی ہوئی جائیداد ہے۔
کراچی آخر ہے کس کا؟ کراچی پاکستان کا کاروباری مرکز ہے، اس شہر میں ملک بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ کراچی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک بھر کے لوگوں کو کاروبار فراہم کرتا ہے۔ ملک کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز کے مراکز بھی کراچی میں ہیں۔ ایشاء کی سب سے بڑی جانوروں کی منڈی بھی کراچی میں ہے۔
کراچی جناح کا “منی پاکستان” ہے۔ یہ بھٹو کا بھی ہے، کپتان کا بھی ہے، شیروں کا بھی ہے اور اسلامی جماعتوں کا بھی ہے اور ہم “عوام” کا بھی ہے لیکن یہ سب باتیں اس وقت تک ہیں جب تک کراچی کی روشنیاں بحال ہیں اور کراچی میں امن قائم ہے۔
اسی سلسلے میں سیاستدانوں سے عرض ہے کہ سیاست ضرور کیجئے مگر سیاسی کارکنوں کی تربیت بھی کیجئے۔ نوجوانوں کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہم سب کے قائد محمد علی جناح نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا ہے۔ ہمیں اپنے نمائندوں کا انتخاب بولٹ کے بجائے بیلٹ سے کرنا ہوگا۔ کہیں ہمارے جوش میں کراچی کی روشنیاں چھن گئیں تو ماضی والے حالات پھر سے رونما ہوں جائیں گے۔ کراچی آپ سب کا ہے اسے اپنا ہی رہنے دیجئے۔