counter easy hit

۔،۔ دو انتہائیں ۔،۔

Muslim

Muslim

تحریر: طارق حسین بٹ، چیرمین پیپلز ادبی فورم

کچھ لوگ ہو سکتا ہے کہ مجھ سے اختلاف کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ موجودہ دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ایک طرف مسلم دنیا کھڑی ہے جبکہ دوسری طرف عیسائی دنیا کھڑی ہے۔ ان دونوں کی باہمی مخا صمت سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔جسے جہاں موقعہ ملا اس نے دوسرے کو لتاڑنے میں کبھی رتی برابربھی اغراض نہیں برتا۔ اپنے مخالفین کو مطیع بنانا اور اسے زیرِ پا رکھنا تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں مقتدر قومیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔

کبھی فارس کا سائر سِ اعظم اپنی عظمت کے جھنڈے گا ڑتا ہے تو کبھی مقدونیہ کا سکندرِ اعظم پوری دنیا کا فاتح بن کر ابھرتا ہے اور یرانیوں سے اپنی شکست کا پرانا حساب چکاتا ہے۔ سیزر، اور ، ہنی بال کی فتوحات سے انکار بھی ممکن نہیں ہے لیکن اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی طاقت کے سارے مراکز بدل گئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان پوری دنیا پر چھا گئے۔مصر، شام،ایران اور روم جیسے بڑے ممالک ان کی عظیم سلطنت کا حصہ بنے اور پانچ سو سالوں تک اسلام ہی پوری دنیا میں طاقت کا مرکز تھا ۔یہ محیرالعقول کارنامہ کیسے سر انجام پایا تاریخ اس کی کوئی بھی مستند توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہے؟اہلِ ایمان اسے قوتِ ایمان کا ثمر کہتے ہیں جبکہ دوسرے بہت سے تاریخ دان اس سے اختلاف کرتے ہیں۔اہلِ یورپ اسے ایک ایسے منہ زور طوفان سے تشبیہ دیتے ہیں جس میںشمشیر زنی اور قتل و غارت گری کا عنصر بڑا نمایاں تھا۔ تاریخ کا یہی ستم ہے کہ ہر قوم کی تاریخ اس کے مزاج اور خصائل کو پیشِ نظر رکھ کر مدون کی جاتی ہے جس سے حقیقت تک پہنچنے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔

حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان شمشیر زنی سے نہیں بلکہ قوتِ ایمانی اور قوتِ بازو سے امامتِ دنیا کی مسند سے سفرفراز ہو ئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ محلاتی سازشوں اور ورا ثتی اقتدار کے زہر نے ان کی ساری صلاحیتوں کو زنگ آلود کر نا شروع کر د یا اور یہی وجہ تھی کہ ١٢٥٨ میں ہلاکو خان کے بغداد پر شب خون نے ان کی ساری عظمت کو زمین بوس کر دیا اور مسلمانوں کا جا ہ و جلال اور رعب و دبدبہ قصہِ پارینہ بن گیا ۔ ہلا کو خا ن نے جسطرح خون کی ندیاں بہائیں اور عوام کا بے رحمی سے قتلِ عام کیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس شکست کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قوتِ ایمانی کا سارا خزانہ ہلاکو خان کی بربریت کی نذر ہو گیا اور مسلمان بھی عام قوموں کی صف میں کھڑے ہو گئے ۔ ان کے ہاں ایمان کی وہ قوت جس سے انھوں نے دنیا کو فتح کیا تھا اب ان سے چھن چکی تھی ۔اب ظاہری اسباب و ذرائع ہی کامیابی کی میزان بنے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسی فارمولے کے تحت اپنا وجود منوانا تھا۔لیکن بدقسمی سے اس میدان میں مسلمان بہت پیچھے رہ گئے ۔ یورپی اقوام دھیرے دھیرے ٹیکنالوجی کی دنیا میںاپنا سکہ جمانے لگیں جس سے ان پر ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی چلی گئیں۔امتِ مسلمہ ہر نئی ایجاد کو غیر اسلامی کہہ کر ٹیکنالوجی کی دنیا سے بہت دور ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے اغیار نے اس پر اپنا غلبہ قائم کر لیا اور امتِ مسلمہ غلامی کی زنجیروں میں قید ہو گئی۔بیسویں صدی میں ایک دفعہ پھر اسلامی ممالک میں آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا ۔جمال الدین افغانی،سر سید احمد خان، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال،مولا ناسید ابو الاعلی مودوی،حسن البنا،سید قطب شہید اور بہت سے دوسرے زعماء اسلامی فکر کے نمائندے بن کر ابھرے جس سے عوام میں اسلامی پہچان کی نئی لہر پیدا ہوئی اور اسلامی دنیا کے جسدِ مردہ میں زندگی کے آثار ر نمودار ہونا شروع ہو گئے جس سے بہت سی نئی اسلامی ریاستیں قائم ہو گئیں اور یوں اسلامی دنیا کا ایک نیا بلاک وجود پذیر ہو گیا جسے (آئی سی سی ) کا نام دیا گیا۔یہ سچ ہے کہ اسلامی بلاک انتہائی کمزور ہے کیونکہ اسلامی ممالک کی قیادتیں امریکہ کے سامنے دوزانو ہیں اور اسی سے اقتدار کی بھیک مانگتی ہیں۔لیبیا کے شہنشاہ کرنل معمر القضافی اور عراق کے صدر صدام حسین کی موت نے اسلامی دنیا کے سارے حکمرانوں پر خوف کی کیفیت طاری کر رکھی ہے ۔وہ مرگِ ناگہانی کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ اگر انھوں نے امریکی سپر میسی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو ان کا انجام بھی ان حکمرانوں سے مختلف نہیں ہو گا۔،۔

قدرت کے کھیل بھی بڑ ے نرالے ہوتے ہیں۔ وہ تما م علا قے جہاں سے اسلام کی آواز سب سے پہلے اٹھی تھی قدرت نے ان علاقوں کو تیل کی دولت سے مالا مال کرد یا جس سے عرب دنیا اور تیل لازم و لزوم قرار پائے۔صنعتی ترقی کیلئے جس ایندھن کی ضروت تھی اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کی مٹھی میں بند کر دیا گیا ۔ صنعتی ترقی کے مراکز امریکہ اور یورپ میں تھے لیکن ان مراکز کیلئے ایند ھن کے خزانے اسلامی دنیا کی زمینوں میں مرتکز کر دئے گئے اور تیل کی اسی دولت نے مسلمانوں کی اہمیت کو دو چند کردیا ۔شاہ فیصل شہید نے ذو لفقار علی بھٹو کی مشاورت سے ١٩٧٤ میں پہلی بار تیل کو بطور سیاسی ہتھیار کے استعمال کیا تو پوری دنیا بلبلا اٹھی۔یورپ کے سارے کارخانیں اور فیکٹریاں بند ہو گئیں اور کساد بازاری کا ایسا جن نمو دار ہوا جس کا سامنا کرنا یورپ کیلئے ممکن نہیں تھا۔ذولفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل شہید اسی گستا خی اور بغا وت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔اتنے بڑے سانحہ کے بعد کسی مسلم حکمران میں ہمت نہیں تھی کہ وہ یورپ کو للکار ے لہذا پورا عالم ِ اسلام یورپ کے زیرِ نگین ہو گیا۔اب تو ایسے لگ رہا ہے کہ اس دنیا پر صرف امریکہ کی حکومت ہے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ اسے چیلنج کر سکے۔اتنی طاقتور حکومت کرہ ارض پر پہلے نہیں دیکھی گئی جو ہزاروں میلوں کی دوری سے بھی کسی کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔اس بات کا زیادہ اطلاق اسلامی دنیا پر ہوتا ہے کیونکہ امریکہ کو حقیقی خطرہ عالمِ اسلام سے ہی ہے۔امریکہ کو خبر ہے کہ جس دن ا سلام کے پیروکاروں میں اسلام کی حقیقی روح جلوہ گر ہو گئی اس کی عظیم سلطنت زمین بوس ہو جائیگی لہذا اس کا سارا زور مسلمانوں کو تہس نہس کرنا رہ گیا ہے۔ یورپ ان گھنائونی خواہشات میں امریکہ کا ہمنوا بنا ہوا ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے میں دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ٢٠٠١ میں نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو اسے صلیبی جنگوں کا نام دیا۔صلیبی جنگیں چونکہ عیسائیت اور مسلمانوں کے درمیاں صدیوں جاری رہی تھیں لہذا جاج ڈبلیو بش نے اسے دو تہذیبوں کی جنگ قرار دیا لیکن اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ ایسا کہنے سے مسلمانوں کے اندر نفرت کا جو جوالہ مکھی اٹھے گا اسے سنبھالنا اس کیلئے ممکن نہیں ہو گا لہذا اس نے اپنے الفاظ واپس لے لئے ۔ امریکہ کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اس کی ترجیحات غلط ہیں اور اس نے طاقت کے بل بوتے اور عسکری قوت کے ساتھ دنیا کی نئی صورت گری کا جو انداز اپنایا تھا وہ غلط تھا جسے وقت کے ساتھ شکست ہو چکی ہے۔ افغانستان سے امریکی شکست اس بات کی غماز ہے کہ عسکری قوت سے مسلمانوں کو نیچا نہیں دکھایا جا سکتا۔

مسلمانوں کیلئے اپنے دین کی خاطر جان دیناکوئی غیر اہم بات نہیں ہے۔ان کیلئے اسلا م کے نام پر مر جانا معمولی بات ہے۔مسلمانوں نے اس جدید دور میں بھی مذہب سے اپنی زندگی کو منسلک کررکھا ہے۔یورپ جس کا مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمان اسلام سے اس قدر کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ اہلِ یورپ کیلئے زندگی سے محبت ان کے رگ وپہ میں ہے۔وہ موت سے انتہائی خو فزدہ رہتے ہیں اور یہی وجہ کے انھیں خود د کش حملوں کی وڈیوز دکھا کر مزید خوفزدہ کیا جاتااور اسلام کے خلاف ان کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ ان کیلئے اسلام اس دنیا میں دھشت گردی کو ہوا دیتا اور معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے۔سوچ کا یہی نقطہ ہے جہاں پر مسلمان اور عیسائی دو انتہائوں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ان کے درمیان اسی دوری نے پوری دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے جس میں مار دھاڑ قائم ہے اور یہ دنیا خاک و خون میں نہلا رہی ہے۔ علا مہ اقبال نے امن ،سلامتی اور ایمانی احساس کو جس طرح ایک شعر میں باہم یکجا کیا ہے وہ انہی کا کمال ہے۔،۔

(۔،۔شہادت ہے مقصو دو مطلوب و مومن۔۔۔۔نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی ۔،۔)

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر: طارق حسین بٹ، چیرمین پیپلز ادبی فورم