تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہم توحیران بلکہ پریشان تھے کہ انہونی کیسے ہو گئی۔ وزیرِ داخلہ بھی اسے انہونی ہی کہتے ہیںکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی ایکشن پلان پر متفق ہوگئیں ۔یقین تونہیں آتاتھا لیکن سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتادیکھ کر یقین کرناہی پڑتا ہے ۔وہ تو اللہ بھلاکرے تیزوطرار اوربیباک الیکٹرانک میڈیا کا جس نے ساراپول کھول کے رکھ دیا ۔اب تک جتنے سیاسی رہنماء نیوز چینلز پرآئے سبھی کامؤقف ایک ۔سارے سیاسی ”میاںمٹھو”ایک ہی رَٹ لگارہے ہیں کہ چونکہ باقی جماعتیں ملٹری کورٹ پرمتفق تھیں اِس لیے مِلّی یکجہتی کی خاطراُنہوںنے بھی طوہاََوکرہاََ یہ کڑواگھونٹ پی لیاالبتہ مولانافضل الرحمٰن ”ُپھڈا”ڈال کے بیٹھ رہے اور پیپلزپارٹی نے توایسا جوازڈھونڈا کہ ہم عش عش کراُٹھے ۔اکابرینِ پیپلزپارٹی نے فرمایاکہ پانچ جنوری چونکہ ذوالفقارعلی بھٹومرحوم کی سالگرہ کادِن ہے اوروہ بھٹومرحوم ہی تھے جنہوںنے آمریت کے خلاف سب سے پہلی بغاوت کی اِس لیے وہ اِس دِن اکیسویں ترمیم کے حق میںووٹ نہیںدے سکتے۔
پیپلزپارٹی کے بزرجمہروںکا کہا سَرآنکھوں پرلیکن شایدوہ بھول چکے کہ فوج کی نرسری میںپَل کرجوان ہونے والے بھٹومرحوم ایوبی دَورکے انیس وزراء میںسے واحدسول وزیرتھے ،باقی سارے وزراء فوجی ۔وہ یہ بھی بھول چکے کہ یہ اعزازبھی بھٹومرحوم ہی کے حصّے میںآیا کہ اُنہوںنے اپنے اقتدارکا آغاز بطور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیا جودُنیا کی واحدمثال تھی۔یہ تو”نَو سو چوہے کھا کے بلّی حج کوچلی”والی بات ہوگئی لیکن پھر بھی پیپلزپارٹی کی مہربانی کہ اُس نے تمام تراختلافات وخدشات کے باوجوداکیسویں ترمیم کے حق میںنہ صرف ووٹ دیناقبول کرلیا بلکہ وہ اِس پرڈَٹ کرکھڑی بھی ہوگئی البتہ مولانافضل الرحمٰن نے ”ٹَکاسا”جواب دیتے ہوئے کہہ دیاکہ وزیرِاعظم صاحب نے مسودہ تیارکرنے میںاپوزیشن کوتو ساتھ رکھالیکن اُنہیںاعتماد میںلیے بغیر”چوری چوری” مسودہ ”پھَڑکا”دیا اِس لیے وہ اِکیسویں ترمیم کے حق میںووٹ نہیںدیں گے ۔جمعیت علمائے اسلام مذہبی اورفرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف ترامیم کوعمومی دہشت گردی میںتبدیل کرواناچاہتی ہے جبکہ دیگر مذہب جماعتوںکا استدلال یہ ہے کہ لسانی اورقومیت کی بنیادپر ہونے والی دہشت گردی کوبھی اِس بِل میںشامل کیاجائے کیونکہ دہشت گردی خواہ کسی بھی مقصدکے لیے کی جائے ،دہشت گردی ہی ہوتی ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایم کیوایم مذہبی اورفرقہ وارانہ دہشت گردی کوترمیم کاحصّہ بنانے پرتُلی بیٹھی ہے ،
جومذہبی جماعتوںکو قبول نہیںجبکہ قومیت اورلسانیت کی بناپر ہونے والی دہشت گردی کی براہِ راست زَد ایم کیوایم پرپڑتی ہے جس کے لیے ایم کیوایم تیارنہیں ۔اُدھرنوازلیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کرباآسانی یہ ترمیم منظورکروا سکتی ہے لیکن یہ ترمیم متفقہ نہیںکہلائے گی جس کے لیے نوازلیگ تیار نہیں۔ویسے اگر نوازلیگ ”زرداری فارمولے”پر عمل کرلے تووثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا”فَٹافَٹ”مان جائیںگے ۔پیپلزپارٹی نے جنابِ آصف زرداری کی قیادت میںپانچ سال اِسی طرح پورے کیے کہ
میںبچا تیرِ حوادث سے نشانہ بن کر
آڑے آئی میرے تسلیم ، سَپر کی صورت
لوگوں کو یاد ہو گا کہ ایک دفعہ مولانا جنابِ آصف زرداری سے روٹھ گئے ،وجہ یہ تھی کہ مولاناکی نظر اسلامی نظریاتی کونسل کی ”چیئرمینی”پر تھی لیکن پیپلزپارٹی اِس پرتیار نہیںتھی اِس لیے مولاناکا روٹھناتو بنتاتھا ۔اُن دنوںحکومت بچانے کے لیے جنابِ زرداری کومولاناکی اشدضرورت تھی اِس لیے مولاناشیرانی کواسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنادیا اور مولانا فضل الرحمٰن پھر پیپلز پارٹی کے ”پَکے”اتحادی بن گئے ۔دوسری دفعہ مولاناپھر پیپلزپارٹی سے روٹھے لیکن تب تک جنابِ زرداری ”پَکا”بندوبست کرتے ہوئے قاف لیگ کو ساتھ ملاچکے تھے اِس لیے مولاناکا روٹھنا بیکارگیا ۔وزیرِاعظم صاحب یہ توجانتے ہی ہیںکہ مولاناپہلے ہی خیبرپختونخوا کی حکومت تحریکِ انصاف کے سپردکرنے پراُکھڑے اُکھڑے رہتے ہیںاور اب کی بار تو میاںصاحب نے حدہی کردی ،مشورہ ہی نہیںکیا ۔مولانااُن دَس فیصد مدارس کی نشاندہی بھی چاہتے ہیںجودہشت گردی میںملوث ہیں۔ مولاناخاطر جمع رکھیں،ہماری خفیہ ایجنسیاں اُن مدارس سے بخوبی آگاہ ہیںاور جب اُن پرہاتھ ڈالاجائے گاتو مولاناکے علم میںبھی آجائے گا ۔یہ یقین کہ مولاناکے مدارس اُن دَس فیصدمیںشامل نہیںکیونکہ مولاناتو ”بقلم خود”حکومت کے اتحادی ہیںالبتہ ”مولانا اتحادی ”سے مشاورت نہ کرناایسا جرمِ عظیم ہے جس کی کم ازکم سزایہ ہے کہ نوازلیگ فوری طورپر ایک اوروزارت مولاناکے قدموںمیں ڈھیر کردے ۔اگر حکومت نے ایسانہ کیاتو لاریب حکومت اکیسویںترمیم آسانی سے منظورکروا لے گی لیکن یہ ترمیم متفقہ نہیں ہوگی کیونکہ مولاناروٹھے ہی رہیںگے۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پوری قوم نے مل کرلڑنی ہے ۔سانحہ پشاورکے شہداء کے خون نے پوری قوم کوتو یکجا کردیا لیکن ہمارے رہنماء اب بھی سیاست کررہے ہیں ۔ہرکسی کے ذہن میںیہی خدشہ کلبلا رہاہے کہ اگرملٹری کورٹس بنانے کے باوجوددہشت گردی پر قابو نہ پایا جاسکا تواُن پریہ الزام دھراجائے گا کہ اُنہوںنے اکیسویںترمیم کے حق میںووٹ دیا ۔اسی لیے سبھی اِسے ”کڑواگھونٹ” کہہ رہے ہیںتاکہ کل کلاںکو وہ اپنے آپ کو بری الذمہ قراردے سکیں ۔وکلاء تنظیمیں اگرملٹری کورٹس کی مخالفت کرتی ہیںتو بات کچھ سمجھ میںبھی آتی ہے کہ اُن کاکام ہی آئین وقانون کی گتھیاںسلجھانا ہے اورسبھی جانتے ہیں کہ آئین میںایسے ملٹری کورٹس کی گنجائش نہیں لیکن سیاسی رہنماؤںکاکیاکیجئے کہ جوآل پارٹیز کانفرنس میںایک بات کرتے ہیںاور باہرنکل کر دوسری۔
وکلاء کوتو شاید یہ جوازپیش کرکے مطمئن کیاجا سکتاہو کہ غیرمعمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات اُٹھانے ہی پڑتے ہیں اور ایساصرف پاکستان ہی نہیںپوری دنیامیں ہوتا آیاہے۔ اگردہشت گردی کایہ عالم ہوکہ جج صاحبان کو براہِ راست دھمکیاںملتی ہوںاور کچھ جج صاحبان اپنے خاندانوںسمیت ملک سے ہجرت کرچکے ہوںتو پھر آفرین ہے اُن حاضرسروس ملٹری آفیسرزپر جو ملٹری کورٹس کی سربراہی کریںگے کیونکہ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہیںاور اُن کے بھی خاندان ہیںجنہیں دھمکیاںبھی مل سکتی ہیںاور خدانخواستہ اُن دھمکیوںپر عمل درآمدبھی ہوسکتاہے ۔یہ بجاکہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہترہوتی ہے اورکوئی بھی عقیل وفہیم کسی بھی صورت میںمارشل لائی آمریت کوقبول نہیںکر سکتالیکن کیایہ سچ نہیںکہ زلزلے آئیں ،دہشت گردی ہویا سیلاب آئیں تو فوج پہلی صف میںنظر آتی ہے ۔تھر میںقحط پڑے توفوج کی ضرورت اورسرحدوںکی حفاظت مقصودہو تو سینوںپر گولیاں کھاکر شہیدہونے والی بھی فوج ۔یہ ہمارے ہی بھائی بیٹے ہیںجو دہشت گردوںکونیست ونابود کرنے اوراُنہیں انصاف کے کٹہرے میںلانے کے لیے سینہ سَپرہیں اورمقصد صرف ایک کہ قوم سُکھ کی نیندسو سکے ۔اسی لیے آل پارٹیزکانفرنس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے برملا کہہ دیاکہ ملٹری کورٹس فوج کی نہیں،قومی ضرورت ہیں۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر